اے آروائی اینکر پرسن ارشد شریف کی خلاف واقعہ باتیں

Arshad Sharif

Arshad Sharif

تحریر : میر افسر امان

اے آر وائی الیکٹرونک میڈیا کے اینکر پرسن اشرف شریف نے کرپشن کے خلاف عمران خان کی کرپشن فری پاکستان کی مہم میں ثبوتوں کے ساتھ کرپٹ لوگوں کو عوام کے سامنے پیش کیا۔ دہشت گردی کے خلاف مہم میںپاک فوج کی مہم میں فاٹا کے اندر جا کر آگاہی پروگرام کرکے بہت شہرت پائی تھی۔ مگر اب تحریک لبیک کے پر تشد ددھرنے اور اس کے نتیجہ میں عمران خان حکومت کی طرف سے تحریک لبیک پر پابندی کی کابینہ سے منظوری،سپریم کورٹ میں کیس داخل کرنے اور الیکش کمیشن سے پاپندی اور اس کے ممبران کو ڈی سیٹ کرنے پر اپنے پاور پلے کے ایک پروگرام میں جماعت اسلامی کی لیڈر شپ کے خلاف اور خلاف واقعہ باتیں کر کے عوام میں اپنے امییج کو ڈیمج کیا ہے۔ تحریک لبیک کے احتجاج کا طریقہ، پر تشد ہنگامے۔ ملک کی شاہریں بلاک کرنے اور پولیس کے اہلکاروں کو شہید کرنے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ سارے ملک میں تین دن راستوں کو بند کرنا ،املاک کو نقصان پہنچانے کسی طرح بھی اچھا اقدام نہیں۔ اب تحریک لبیک کے رہنما نے اپنے کارکنوں کو پرتشد احتجاج تحریک ختم کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ اے کاش! کہ شروع سے ہی بات چیت کاراستہ اختیار کیا جاتا۔

غیر جاندار تبصرہ نگار اور سوشل میڈیا پر بھی حکومت اور تحریک لبیک کو بات چیت کا راستہ اختیار کرنے کا طریقہ اور حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان جومعاہدے ہوئے تھے ان پر عمل در آمد کرنے کے مشورے دیے۔اگر حکومت بھی مسئلہ کو پارلیمنٹ میں رکھتی تو پارلیمنٹ ضرور کوئی راستہ نکالتی اور حکومت بھی بدنامی سے بچ جاتی۔ پہلے مہنگاہی کامارے لوگ عمران خان صاحب کے خلاف ہوئے اب رسولۖ اللہ سے محبت کرنے والوں پر پابندی لگا اپنا مخالف کر لیا۔ عمران خان نے پہلے بھی کشمیر کے مسئلہ پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے مشورے پر عمل نہیں کیا۔ سراج ا لحق نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ ٥ اگست ٢٠١٩ء جب مودی نے کشمیر کے بارے بھارت کے آئین میں خصوصی دفعات ٣٧٠ اور ٣٥ اے کو یک سر ختم کر کے بھارت میں ضم کر لیا تھا تو عمران خان اس قومی مسئلہ پر اپوزیشن کو ساتھ ملانا چاہیے۔ سب مل کر آزاد کشمیر کے دارلخلافہ مظفر آباد میں کشمیر کے ساتھ یکجہتی کیاپروگرام ترتیب دیں۔ ساری پارٹیوں کا متفقہ بیان آ ئے تاکہ مودی حکومت پرپریشئر پڑے۔مگر عمران خان نے یہ پروگرام اکیلے ہی کیا۔ملک کے عوام اور تحریک لبیک ختم نبوت کے معاملہ میں یک جان ہیں۔یہ چیز عمران خان کے ہاتھ مضبوط کر سکتی تھی۔ عمران خان نے اقوام متحدہ میں جرأت سے رسول ۖ اللہ کی شان میں گستاخی پر معاملہ اُٹھایا تھا۔ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کو اس مسئلہ پر یک جہتی کے لیے خط بھی لکھے ۔

عمران خان کو چاہیے تھا کہ تحریک لبیک کو سمجھداری سے ہینڈل کر کے اس قوت کو دنیا میں رسولۖ اللہ کی شان میں گستاخیوں کو روکنے میںاستعمال کرتے۔ وہ یہ طریقہ تھا کہ معاملے کو پارلیمنٹ میں رکھتے اتفاق رائے سے کوئی نہ کوئی حل نکلتا۔ جیسے کی اس سے قبل سعودی عرب کے مطالبہ پر فوج یمن بھیجنے کے وقت نکلا تھا۔ جیسے افغانستان پر امریکی حملے کے وقت افغان مسلمانوں کے حق میں ایم ایم اے بنی ۔ طالبان سے یکجہتی کے نام پر قومی اسمبلی کی ٦٩ سیٹیں، پارلیمنٹ میں لیڈر آف حزب اختلاف اور دو صوبائی حکومتیں بنائیں۔ ڈکٹیٹر مشرف نے ایم ایم اے کو اچھے طریقے سے ڈیل کر کے امریکا پر دبائو ڈالے رکھا۔ اسی طرح تحریک لبیک کے ساتھ بات چیت کا کوئی راستہ اختیار کر انہیں مطمئن کے کر مغرب پر دبائو ڈالنے کے ہتھ گنڈا کے طور پر استعمال کر سکتا تھا۔ جس سے فرانس پر بھی دبائو اور اقوام متحدہ میں رسولۖاللہ پرگستاخی کو روکنے کی قانون سازی کرانے میں بھی مدد ملتی۔ مگر عمران خان کی سیاسی بصیرت ایسا کام نہ کر سکے۔ تحریک لبیک کے سربراہ کو گرفتار کیا۔ جس سے ملک میں انارکی پھیلی۔

محب وطن عناصر جن میں سیاسی پارٹیوں کے رہنما شامل ہیں اس جمہوری دور میں کسی بھی واقعہ کو پر امن طریقے سے بات جیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے حکومت وقت کو مشورے دیتے رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں تحریک لبیک کے موجودہ مسئلہ کو حل کرنے کے لیے حکومت کو بات چیت کے مشورے دیے ہیں۔ طالبان کی تحریک میں بھی اس وقت کی حکومت کو محب وطن عناصر کہتے تھے کہ دشمن سے تو بات چیت کر ہم مسائل حل کرنے کی بات کرتے ہیں تو ملک کے ناراض لوگوں سے بھی بات چیت سے مسئلہ کو حل کیا جائے۔ اس دور میں عمران خان نے بھی طالبان بارے یہی بات چیت کا مؤقف اختیار کیا تھا۔ جسے امن پسند حلقوں میں پذیرائی ملی تھی۔ عمران خان کو اس وقت لوگ بات چیت کے چمپیئن کہتے تھے۔ بلکہ عوام کو اچھی طرح یاد ہے کہ عمران خان کے مخالف حلقے عمران خان کو طالبان خان کاخطاب بھی دیا تھا۔ عمران خان کے مخالف اب بھی کبھی کبھی یہ گردان دھراتے رہتے ہیں۔ عمران خان حکومت کی کامیابی ہے کہ پہلی دفعہ فوج اور سیاسی حکومت ایک پیج پر ہیں۔ عمران خان اور فوج کے سربراہ نے پاکستانی عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ اب پاک فوج کسی کی کرایہ کی فوج نہیں بنے گی۔ کسی پرائے کی لڑائی نہیں لڑے گی۔ پاکستانی فوج اور عوام نے نے دہشت گردی ختم کرنے کے لیے دنیا میں سب سے زیادہ

٢
قربانیاں دی ہیں۔ اب دنیا ڈو مور کرے۔ یعنی بات چیت کا راستہ اختیار کیا۔ اسی طرح دوسری محب وطن لوگوں کی طرح جماعت اسلامی کے رہنما بھی اُس وقت کو مذاکرات کرنے کی طرف راغب کرنے کی درخواستیں کرتے تھے۔جس میں سراج الحق امیر جماعت اسلامی اور نائب امیر پروفیسر ابراھیم بھی شامل تھے۔ جماعت اسلامی نے تحریک طالبان کی بندوق کے زور پر اسلام نافذ کرنے کی نام نہاد کاروائیوں کے پر زور مذمت اور مخالفت کی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت کو طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے کا کہا تھا۔امریکا ہمارے ملک میں تباہی پھیلانے پر طالبان کو آلہ کار بنائے ہوئے تھا۔ اب بھی تحریک لبیک کے حوالے سے سراج الحق امیر جماعت اسلامی نے بات چیت سے حل کرنے کی بات کی ہے۔ اس پر اے آر وائی کے پاور پلے پرگرام کے ارشد شریف نے دوسرے لوگوں کے ساتھ سراج الحق امیر جماعت اسلامی اور اور پروفیسر ابراھیم نائب امیر جماعت اسلامی کے پرانے کلپ چلا کر عوام کو گمراہ کرنے کی اور خلاف واقعہ باتیں کیں ہیں۔ کیا یہ ان کا ذاتی رائے ہے یا پہلے کی طرح کسی کے کہنے پر ایسا کیا ہے۔

کیا عمران خان نے حکومت وقت کو طالبان سے بات چیت کرنے کامشورہ نہیں دیا تھا؟ کیا ارشد شریف کو عمران خان کے حکومت وقت کو طالبان سے معاملہ سلجھانے کے لیے بات چیت کے کلپ چلانے کی جرأت نہیں کرنی چاہیے تھی؟ امیر جماعت اسلامی اور نائب امیر پروفیسر ابراہیم ہی کے صلح صفائی اور بات چیت کرنے کے کلپ چلا نے اور بات چیت کے خلاف باتیں کرکے ملک کی کیا خدمت کی ہے۔ جماعت اسلامی کے کارکن اپنے لیڈر شپ کی پوزیشن صاف کرنے کے لیے زندہ ہیں۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کے فوج مخالف رویہ اپنا کر جیو کے نامی گرامی اینکر پرسن حامد میر عوام میں اپنی کریڈٹ اپلیٹی خراب کر چکے ہیں۔ ارشدشریف بھی ایسی نامناسب حرکت کے اپنی خیر منائیں۔ آپ نے جن جماعت اسلامی کے لیڈروں کی عوام میں قدر و قیمت کم کرنے کی کوشش کی ہے ان کے چاہنے والے پاکستان اور ساری دنیا میں موجود اور فعال ہیں۔ آپ اپنے رویہ سے رجوع کریں ۔ آیندہ خلا ف واقعہ بتاتیں جماعت اسلامی کی لیڈر شپ سے منسوب نہ کریں۔ یا پھر رد عمل برداشت کرنے کے اپنے آپ کو تیار رکھیں۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان