اسد عمر کا استعفی: ملک میں سیاسی و معاشی طوفان

Asad Umar

Asad Umar

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کی کمزور معیشت کو ایک اور جھٹکا۔ اسد عمر کے استعفےٰ نے ملک میں ایک سیاسی اور معاشی طوفان کھڑا کردیا ہے۔ اس خبر سے اسٹاک ایکسچینجوں میں کھلبلی مچ گئی ہے اور ان میں زبردست مندی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔

اسد عمر نے اس بات کی تصدیق اپنی ٹوئیٹ میں کی ہے کہ عمران خان کابینہ میں تبدیلی چاہتے تھے اور یہ کہ انہیں وزارت خزانہ کی جگہ اب وزیرِ توانائی بننے کی پیش کش کی گئی تھی۔ تاہم انہوں نے یہ وزارت لینے سے معذرت کر لی ہے اور مستقبل میں کابینہ کا حصہ بننے سے بھی معذوری ظاہر کی ہے۔ ملک میں اب یہ افواہیں گرم ہیں کہ مزید وزراء کے قلمدان بھی تبدیل کیے جا سکتے ہیں جبکہ وفاقی بیوروکریسی میں بھی تبدیلیاں ہونے جا رہی ہیں۔

پی ٹی آئی کے رہنما ظفر علی شاہ کا کہنا ہے کہ تبدیلی کی ہوا چل گئی ہے: ’’میرے خیال میں مزید تبدیلیاں ہوں گی کیونکہ اس طرح کے باتیں پارٹی کے اندرونی سرکلز میں ہو رہی تھیں۔ میرا اندزہ ہے کہ وفاقی سطح پر تبدیلیاں آئیں گی لیکن میں ابھی پنجاب کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ بزدار صاحب کو ہٹایا جائے گا یا نہیں۔‘‘

اسد عمر کے مطابق وزیراعظم عمران خان کابینہ میں تبدیلی چاہتے تھے اور یہ کہ انہیں وزارت خزانہ کی جگہ اب وزیرِ توانائی بننے کی پیش کش کی گئی تھی۔

اسد عمر کو کیوں ہٹایا اس حوالے سے بھی چہ میگوئیاں چل رہی ہیں اور ان کی جگہ کون لے گا اس حوالے سے بھی خوب تبصرے ہو رہے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ فیصلوں میں تاخیر اسد عمر کے استعفیٰ کی وجہ بنی۔ وزراتِ خزانہ کے ایک ذریعے نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’کئی ماہرین کا خیال ہے کہ اسد عمر نے آئی ایم ایف کے پاس جانے میں بہت دیر کی۔ جس کی وجہ سے معیشت کو نقصان ہوا۔ اسی طرح روپے کی قدر کم کرنے کا فیصلہ بھی وقت پر نہیں ہوا اور جب یہ کم ہوئی تو اس پر تنقید کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا، جس کی وجہ سے حکومت پر دباؤ پڑا اور اس کا سارا ملبہ اسد عمر پر گرا۔‘‘

لیکن کئی سرکاری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جو شرائط آئی ایم ایف کر رہا ہے، وہ مکمل طور پر پوری کرنا کسی بھی وزیر کے بس کی بات نہیں۔ پلاننگ کمیشن کے ایک ذریعے کا دعویٰ ہے کہ اسد عمر کو آئی ایم ایف کی شرائط پر سخت رویہ دکھانے پر گھر بھیجا گیا۔ پلاننگ کمیشن کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’آئی ایم ایف والے کہہ رہے ہیں کہ سی پیک کے حوالے سے مکمل اطلاعات دیں کہ زراعت، صنعت کاری اور ریئل اسٹیٹ میں چین کس طرح کی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور اس پر سود کیا ہو گا۔

ادائیگیوں کا کیا طریقہ کار ہوگا اور یہ ادائیگیاں کیسے کی جائیں گی؟ آئی ایم ایف کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ دفاع کے حوالے سے بجٹ کی بھی تفصیلات دی جائیں۔ یہ ایسی شرائط ہیں، جن کو کوئی وزیر پورا نہیں کر سکتا تو آنے والے وزیر کو بھی ایسی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘

اسد عمر کے استعفے سے اسٹاک ایکسچینجوں میں کھلبلی مچ گئی ہے اور ان میں زبردست مندی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ میں جہاں کچھ مبصرین نے اس کو مثبت قدم قرار دیا ہے وہیں کئی تجزیہ نگار اس پر تنقید کر رہے ہیں۔ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس سے ملک کے معاشی حالات بہتر ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو آٹھ ماہ بعد احساس ہوا کہ ان کی معاشی پالیسیاں غلط ہیں۔

اسد عمر کے متبادل کے لیے شوکت ترین، سابق گورنر اسٹیٹ بینک شمشاد اختر، ڈاکٹر عشرت حسین، اور عمر ایوب کے نام زیرِ غور ہیں۔ تاہم وزارتِ خزانہ کے ایک ذریعے کا دعویٰ ہے کہ ہمایوں اختر بھی اس وزارت کے ایک مضبوط امید وار ہیں۔

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ تبدیلی کی اس ہوا نے اگر پنجاب کا رخ کیا تو وہاں حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ پنجاب میں حکومت کی اکثریت کا دارو مدار پی ایم ایل کیو پر ہے، جبکہ یہ جماعت پی ٹی آئی حکومت کو مرکز میں بھی سپورٹ کر رہی ہے۔ پی ایم ایل کیو یہ بات واضح کر چکی ہے کہ وہ عثمان بزدار کی تبدیلی کو برداشت نہیں کرے گی۔ ایسی صورت میں اگر عمران خان عثمان بزدار کو ہٹاتے ہیں تو سخت ردِ عمل سامنے آ سکتا ہے۔