تحریر : یوسف عالمگیرین فیس بک پر نوید چوہدری کی جانب سے دی گئی اطلاع کہ معروف صحافی اسد ساہی انتقال کرگئے ہیں‘ نے چونکا کر رکھ دیا۔ ایسا بندہ جو زندگی کو بھرپور طریقے سے جینے کا حوصلہ ہی نہیں سلیقہ بھی رکھتا ہو وہ کیونکر یوں اچانک سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ملکِ عدم روانہ ہو سکتا ہے ۔۔۔!میری اسد ساہی سے پہلی ملاقات1993 میں لاہور میں ہوئی۔ ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ میں دسمبر92 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد اپریل1993 میں ایشین ترقیاتی بنک کے ایک پر اجیکٹ میں جاب کررہا تھا۔ اُس پراجیکٹ میں ہم دو لوگ میں اورطارق جاوید (جو اِن دنوں ڈی جی پی آر میں ہیں) پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ جبکہ دیگرتین ساتھی حمید گو رایہ ، اقبال انجم اور سجاد صدیقی شعبہ صحافت بہاولپور یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔
اسد ساہی سجاد صدیقی کا کلاس فیلو تھا۔ سجاد صدیقی چونکہ خود بہت مرنجاں مرنج شخصیت ہے جو اُس سے ایک مرتبہ ملتا ہے پھر بار بار ملنے کی خواہش رکھتا ہے۔ صدیقی صحیح معنوں میں ’’یار بیلی‘‘ آدمی ہے۔ یہی وجہ ہے سجاد صدیقی کے جتنے بھی دوست ملنے آتے وہ اُس کی ہی طرح کے کھلے ڈھلے‘ ایک دوسرے کا بھرم رکھنے اور ساتھ چلنے والے ہوتے۔ اسد ساہی‘ قدرت اﷲ ‘ میر عتیق ‘ مقبول احمد،اعجاز فقہی اور چند ایک اورلوگ اکثر کوپرروڈ لاہور پر واقع ہمارے آفس آیا کرتے جن سے ہماری بھی فرینک نیس اور تعلق اتنا بڑھا کہ وہ اپنے اپنے سے محسوس ہونے لگے۔
اسدساہی بھی اُن میں سے ایک تھے۔ تب تک اسد ساہی باقاعدہ کسی اخبار میں کام نہیں کرتا تھا اس نے صحافت غالباً1996 میں شروع کی۔ اسد ساہی اپنے مخصوص سٹائل اور محنت کی بدولت صحافت میں بہت جلد وہ مقام بنانے میں کامیاب ہوگیا جو اُس سے دس سال پہلے کارِراز صحافت میں آنے والے بھی حاصل نہیں کرپائے تھے بلکہ صحافت میں بہت سے لوگ اسدساہی کے سہارے کھڑے ہوئے۔ پریشان اور تذبذب کا شکار لوگوں سے اسد ساہی کبھی کنی نہیں کتراتا تھا بلکہ اُن کی مدد کرکے خوشی محسوس کرتا۔سجاد صدیقی اور اسد ساہی دونوں کالم نگار جاوید چودھری کے بہاولپور یونیورسٹی کے سیشن فیلو تھے۔ یوں صحافت میں جاوید چودھری کے علاوہ اُن کے جس کلاس فیلو نے صحافت میں نام بنایا اُس میں اسد ساہی کا نام سرِ فہرست تھا۔
Asad Sahi
اسد ساہی جیو سمیت دیگر اداروں سے وابستہ رہا۔ سٹی 42 کے ساتھ تو وہ پہلے دن ہی سے تھا اور ان دنوں وہ چیف رپورٹر کے طورپر خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ سٹی42 نے جس انداز سے اسد ساہی کی رحلت ‘ اُس کی رسمِ قل اور اسد ساہی کی شخصیت کے حوالے سے پروگرام پیش کئے ہیں اس نے واقعتا یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ سٹی42 صرف ایک میڈیا گروپ نہیں بلکہ ایک خاندان ہے۔ اور بلاشبہ اسے ایک خاندان بنانے میں محسن نقوی کا کلیدی کردار ہے۔ یوں سٹی 42 فیملی کے ایک ایک فرد نے اسد ساہی کی رحلت کے غم کو اپنا غم سمجھا ہے۔ اسد ساہی کا یوں اچانک چلے جانا اُس کے خاندان اور بچوں کے لئے ایک بہت بڑا صدمہ ہے ہی اُس کے ساتھیوں اور چینل سٹی42 کے لئے بھی کسی بڑے نقصان سے کم نہیں کیونکہ اس طرح کے مخلص‘ دبنگ ‘ کہنہ مشق اور تجربہ کار کارکن خال خال ملتے ہیں۔
اسد ساہی کا تعلق سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ سے تھا۔ مجھے اس کی جواں سال اور اچانک رحلت سے برسوں پہلے ڈسکہ سے تعلق رکھنے ولے ایک معروف صحافی جاوید جمال ڈسکوی یاد آ گئے جن کا سفر صحافت میں پوری آب و تاب سے جاری تھا کہ سیالکوٹ سے لاہور آتے ہوئے گوجرانوالہ کے قریب ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ اُن کے بعد اسدساہی کی رحلت نے اہلیان ڈسکہ اور اہلیاں صحافت کو یہ دوسرا غم دیا ہے۔
Journalism
اسدساہی یوں اچانک رخصت ہو کر اپنے چاہنے والوں کو دکھی کر گیا ہے۔ یہ ایسا کام ہے جو اس کی شخصیت کے برعکس تھا وہ ہر کسی کو خوش دیکھنا چاہتا تھا۔ یاری دوستی نبھانے میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ پھر کیسے ایسا شخص سب کو تنہائی کا غم دے کر چلا گیا ۔ بہرکیف انسان اس حوالے سے بے بس ہے کہ اسے قدرت کی رضا میں ہی راضی رہنا ہے ۔ اﷲتعالیٰ اس کے چاہنے والوں کو صبر دے اور اسدساہی کی مغفرت کرے۔