جکارتہ (اصل میڈیا ڈیسک) جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم آسیان کا سربراہ اجلاس انڈونیشی دارالحکومت جکارتہ میں آج سے شروع ہے۔ اس اجلاس میں شرکت کے لیے میانمار کی فوجی حکومت کے سربراہ بھی جکارتہ پہنچ گئے ہیں۔
رواں برس پہلی فروری سے میانمار کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کو ملکی فوج نے فارغ کر کے اقتدار پر قبضہ کر رکھا ہے۔ حکومتی انتظام میں اس غیر معمولی تبدیلی کے بعد سے میانمار میں پرتشدد سیاسی افراتفری جاری ہے۔ عوام جمہوری حکومت کی بحالی کے لیے احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اقتدار فوجی حکومت کے سربراہ جنرل من آنگ ہلینگ کے ہاتھ میں ہے۔
جنرل من آنگ ہلینگ جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کی سمٹ میں خطے کے سربراہوں سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔ یہ پہلا انٹرنیشنل فورم ہے، جس میں جنرل ہلینگ کو اپنے ملک میں پیدا انتشار، بحران اور پرتشدد صورت حال کی وضاحت کرنا ہو گی۔
میانمار کے ہمسایہ ملکوں میں چین، بھارت اور تھائی لینڈ شامل ہیں اور یہ دس رکنی تنظیم آسیان کا حصہ ہیں۔ کورونا وبا کے باوجود سربراہ اجلاس میں رکن ممالک کے سربراہان ذاتی طور پر شریک ہو رہے ہیں، اس طرح یہ ورچوئل سمٹ نہیں ہے۔
جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم اپنے اس خصوصی سربراہ اجلاس میں میانمار کے بحران پر فوکس کر رہی ہے۔ یہ ایک منی مگر خصوصی سمٹ ہے اور اس میں جنرل من آنگ ہلینگ اقتدار پر قبضے کے حوالے سے اپنا موقف بیان کریں گے۔
اس مناسبت سے انڈونیشی وزیر خارجہ ریتنو مارسودی نے کہا ہے کہ یہ سربراہ اجلاس واضح کرتا ہے کہ آسیان تنظیم میانمار کے بحران پر گہری تشویش رکھتی ہے اور آسیان کا یہ عزم ہے کہ وہ اس ملک کو اس بحرانی صورت حال سے باہر نکالنے میں مدد کرے۔ مارسودی نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ اتوار کے روز ایسا معاہدہ تشکیل پا سکتا ہے، جو میانمار کی عوام کے لیے اچھا ہو گا۔ فلپائنی وزیر خارجہ نے بھی اس سمٹ کے موقع پر میانمار کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
آسیان سمٹ میں میانمار کی فوجی حکومت کے سربراہ کی شرکت کو معمول سے ہٹ کر اقدام قرار دیا گیا ہے۔ جنرل من آنگ ہلینگ کی اپنے ملک سے روانگی کی فوٹیج انڈونیشیا کے صدارتی پیلس کے سرکاری ویڈیو چینل پر نشر کی گئی۔ یہ ان کا پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔ بعض سفارت کاروں اور حکومتی اہلکاروں نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ سمٹ میں جنرل ہلینگ سے کمٹمنٹ بھی لی جا سکتی ہے کہ وہ احتجاجی جلوسوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کے استعمال کو کنٹرول کریں گے۔
میانمار میں فوجی حکومت مخالف ریلیوں میں ساڑھے سات سو کے قریب افراد سکیورٹی اہلکاروں کی گولیوں سے ہلاک ہو چکے ہیں۔