تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری اپنے میٹھے الفاظ سے عوام الناس کی اصلاح کرنے والے نابغہ روزگار شخصیت اشفاق احمد کو آج ہم سے بچھڑے تیرہ برس بیت چکے ۔ یہ دن قوم کو ایک ذات نہیں بلکہ ایک انجمن سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ ڈرامہ انڈسٹری کو بھی یتیم کر گیا ۔ان کے جانے کے بعد اس قوم کو ایسا “داستان گو” نصیب نہیں ہوا جو اپنے قصے ، کہانیوں سے علم و حکمت ، عقل و دانش اور فکر و حیرت کے موتی بکھیر سکے۔
اس عظیم سخن طراز کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جو قیام پاکستان کے بعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے ۔ اردو ادب میں اشفاق احمد جیسی کہانی لکھنے کا فن کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہو سکا یہی وجہ ہے کہ جب 1953 میں انہوں نے افسانہ “گڈریا” لکھا تو شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گئے ۔ 1965 میں جب ریڈیو فیچر پروگرام “تلقین شاہ” کرنا شروع کیا تو اپنی ذومعنی گفتگو اور طرز مزاح کی وجہ سے عوام میں ایک منفرد مقام حاصل کیا ۔ قصہ گوئی کی بات کی جائے تو کوئی ٹی وی پروگرام انکے “زاویہ” کی برابری نہیں کر سکتا۔
اردو ادب کے حوالے جب بات کی جاتی ہے تو پاکستان کے نامور ادیب اشفاق احمد کے ذکر کے بناء ادب کی تاریخ نامکمل اور ادھوری معلوم ہوتی ہے۔اشفاق احمد ایک افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، فلسفی ادیب اور دانشور ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین براڈ کاسٹر بھی تھے۔ فنون لطیفہ کے علاوہ انہیں اولیاء اللہ اور صوفی ازم سے خاص لگاؤ تھا۔
اشفاق احمد بائیس اگست انیس سو پچیس کو بھارت کے صوبے اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں غازی آباد میں حاصل کی۔ تقسیم کے بعد ہجرت کرکے لاہور آبسے اور گورنمٹ کالج لاہور سے اردو ادب میں ماسٹرز کرنے کے بعد ریڈیو آزاد کشمیر سے منسلک ہوگئے۔ اس کے بعد اشفاق احمد نے دیال سنگھ کالج لاہور میں بحیثیت لیکچرار ملازمت اختیارکی۔ دو سال بعد آپ روم یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔ وطن واپسی کے بعد آپ نے ادبی مجلہ “داستان گو” جاری کیا جو اردو کے ابتدائی رسالوں میں شمار کیا جاتاہے۔ فن اور ادب کی خدمت کرتے ہوئے کچھ ہی عرصے میں آپ مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جو بعد میں اردو سائنس بورڈ میں تبدیل ہوگیا۔ جنرل ضیاء کے دور حکومت میں آپ وفاقی وزارت تعلیم کے مشیر بھی مقرر کیے گئے۔
اردو زبان اور لاہور کی لذت سے لبریز پنجابی الفاظ کو ادبی تناظر کے جس قالب میں اشفاق احمد نے ڈھالا اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہیں کہانی لکھنے پر جتنا عبور تھا اسی طرح بہترین قصہ گو بھی تھے۔ جس کی مثال پروگرام “زاویہ” میں نوجوانوں کی بھرپور تعداد میں شرکت اور آپ کے گھر پر منعقدہ محفلیں ہیں جن میں ہر عمر اور ادب کا متوالا اپنی شرکت کو باعث افتخار سمجھتا تھا۔اشفاق احمد نے ساٹھ کی دہائی میں ایک فیچر فلم ”دھوپ اور سائے” بھی بنائی تھی۔ گوکہ فلم زیادہ پذیرائی حاصل نہ کرسکی لیکن اپنے مشہور گیت کی بدولت یادوں میں محفوظ ہے۔
انیس سو تریپن میں شائع ہونے والے افسانے ”گڈریا ” نے ان کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے.اشفاق احمد کی تصانیف میں ایک محبت سو افسانے ، اجلے پھول، سفر در سفر، کھیل کہانی، ایک محبت سو ڈرامے، طوطا کہانی اور زاویہ جیسی بہترین شاہکار شامل ہیں اور ان کا ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر ہونے والا پروگرام “تلقین شاہ” آج بھی نئے لکھنے والوں کیلئے مشعل راہ ہے جو اپنی ذومعنی گفتگو اور طرز مزاح کے باعث مقبول عام ہوا اور تیس سال سے زیادہ چلتا رہا۔ اشفاق احمد کو صدارتی تمغہ برائے حُسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
اشفاق احمد کو ادب کی دنیا میں جو مقام نصیب ہوا وہ ادبی افق پر کم ہی ادیبوں کو نصیب ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی تحریروں اپنے انتقال کا احوال اور آنے والوں کے احساسات کا جو حال جس طرح لکھا بالکل اسی طرح سات ستمبر دوہزار چار کو آپ کے انتقال کے بعد چاہنے والوں نے دیکھا اور آج بھی اہل فہم و فراست بابا اشفاق احمد کو یاد کرتے ہیں کیونکہ ادیب کبھی مرتا نہیں وہ اپنی تحریر کی صورت ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
اشفاق احمد کی یاد میں۔۔ شاعر،،افتیخار افی ھمیں یہ سوچنا ھو گا ، کہ اس عجلت کے مارے اک فرشتہ سے مسافر نے گھڑی بھر کے پڑاو میں سنوارا تھا چمن کیسے،،،،، وہ کیسے مسکراتا تھا،،،، بڑے مانوس لہیجے میں ادب سے بات کرتا تھا،،، بڑی ہی سادگی سے پیار کی بھاشا سکھاتا تھا،،،، اسے لوگوں میں راحت بانٹنے کا شوق تھا شاید،،،، بڑے آسان لفظوں میں ،،،، شکستہ حال لوگوں کو ،،،، غم دوراں کے ماروں کو،،،، خوشی کے گر سیکھاتا تھا،،،، ھمیشہ کیوں یہ کیہتا تھا،،، خدا آسانیاں دے اور ھمیں تقسیم کرنے کا شرف بخشے ،،،، زرا سوچو،،،، ھوئی مدت مسافر جانب منزل ھوا رخصت،،،، مگر وہ زیست کے ھر زاوییے میں ایسے پنہا ھے،،،،، مجھے ھر شام سے پہلے اسی کی یاد آتی ہے،،،،، ،اجالا جب بھی ھوتا ھے،،،، مجھے وہ یاد آتا ھے،،،، شاعر،،افتیخار افی