حساب دوستاں اشفاق سیٹھی

Isuzu

Isuzu

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
کسی نے کسی سے پوچھا بھائی اچھا ہوتا ہے یا دوست جواب ملا ہوتا تو بھائی ہی اچھا لیکن اسے بھی دوست ہی ہونا چاہئے ۔یو کے سے فہیم اشفاق سیٹھی کا فون تھا پتہ چلا اشفاق سیٹھی بیمار ہے اور شیخ زاید ہسپتال میں گردے صاف کرنے والی مشین کا سامنا کر رہا ہے۔سیٹھی نام کہاں سے آیا یہ مجھے پتہ نہیں لیکن سعودی عرب میں ایک مرنجان و مرنج وضح دار کڑاکے کی آواز کا حامل ایک شخص نوے کی دہائی سے میرے تعارف میں آیا ۔پتہ چلا گجر ہے اور کشمیری مہاجر ہے داتا کی نگری کا بسنیک میرا یہ پیارا دوست آج جب فون کیا تو وہی کڑاکے دار آواز کہنے لگا چودھری صاحب وہ بھی دن تھے اور یہ بھی دن ہیں چلو اس کی رضا پر راضی ہوں ایک گردہ خراب ہو چکا ہے اس کی صفائی کروا رہا ہوں۔ اس میرے بھائی کا اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا گردہ کون کھا گیا کفیل یا ہمارا یہ نظام جس نے پچاس سنٹی گریڈ سے اوپر درجہ ء حرارت میں پاکستانیوں کو وطن سے دور سخت محنت پر مجبور کیا اور وہ جو برفانی علاقوں میں منفی تیس پر مر کھپ رہے ہیں ان کی داستان بھی کوئی ایسی ہی ہو گی۔کینیڈہ سے میرا پیار بھانجا جو کہانیاں سناتا ہے وہ بھی اس سے کم نہیں ہیں۔

یک بار میاں نواز شریف صاحب جدہ آئے یہ اوائل نوے کے دن تھے جدہ قونصلیٹ میں بلیک شیروانی اور بلیک جناح کیپ پہنے تقریر کی۔ہم پاکستان انجینئرز کمیونٹی کے اراکین ان سے ملے اور کہا جناب ہمیں یہاں یہ مسائل ہیں آپ مہربانی کریں قونصل خانے کو ہدائت دیں کہ وہ مدد کرے موصوف نے جواب دیا میں آپ کو چند سالوں میں پاکستان لے جائوں گا آپ کیا بات کرتے ہیں آپ یہاں کیوں پریشان ہوں تالیوں سے قونصل جنرل کا گھر گونج اٹھا۔اور ہوا یہ کہ وہ مال پانی بناتے بناتے پانامے ہو گئے اور ہم زندگیاں تباہ کر کے اپنے توشے میں شوگر بلڈ پریشر لے کر پاکستان آ گئے ہمارے صدر سلیم معینی کو نصیر اللہ بابر کھا گیا اور وہ رمضان میں ننگے پائوں پاکستان بھیج دئے گئے وہاں سے امریکہ پاکستان کو گالیاں دیتے دیتے اس دنیا سے چلے گئے اس لئے کہ انہیں ملک دشمن کی نظر سے دیکھا گیا یہ جانب سلیم معینی کی داستاں ہے جو اس وقت پاکستانیوں میں ایک ایسے شخس تھے جو ایئر پورٹ پر ڈائریکٹر لیگل آفیئرز تھے حفیظ اللہ نیازی ان کے ساتھ ہی کام کیا کرتے تھے۔یہ وہ لوگ ہیں جو گمنام راہوں پر مارے گئے۔آج جب جمہوریت بحال ہے تو وہ لوگ تمغے لے گئے جن کا کوئی عمل دخل ہی نہ تھا جو جیلوں میں گلے سڑے انہیں شکنجے میں کسے جا رہا ہے۔

کیا کیا کہانیاں ہیں ۔لگتا ہے سناتے سناتے سو جائیں گے۔انجینئر اسحق وہیں بیمار ہوئے مرنے کے لئے پاکستان آ گئے باقی کہاں کھپ گئے علم ہی نہیں البتہ ایک انجینئر احسان ہے جو بہاریوں کو پاکستان لاتے لاتیء خود کینیڈین ہو گئے ہیں اور جدہ میں آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔اشفاق سیٹھیوں کے ساتھ کیا ہوا میاں صاحب کیسے دن گزار رہے ہیں یہ ایک ایسی داستان ہے سچ پوچھیں جس کا کوئی سر اور پیر ہی نہیں۔ہاں ایک مرثیہ ء انیس ہے جو لکھا جا سکتا ہے۔

اشفاق سیٹھی پر جی چاہتا ہے کتاب لکھوں کیا شخص ہے اور کیا شخص تھا اس نے صرف گجروں کے لیئے نہیں ہر اس پاکستانی کی مدد کی ہے جسے مدد کی ضرورت تھی۔جدہ کا ستارہ شخص ہے دیکھیئے گا میں لکھوں گا تو لوگ اس تحریر کو کیسے سینے میں لگائیں گے۔فہیم اور فیصل ایک لندن میں ہے اور دوسرا پیرس میں۔سیٹھی ہمیشہ ہی کہا کرتے تھے کہ چودھری صاحب دعا کریں اللہ مجھے ہمت دے کہ میں بچوں کو کسی ٹھکانے لگا دوں۔بیرون ملک پاکستانیوں میں ننانوے فی صد باپ کی لاٹھی بنتے ہیں بھائیوں کا خیال رکھتے ہیں بہنوں کی شادی کراتے ہیں اور رات دن زندگی کی گاڑی کھینچ کر جب آرام کرنے کا وقت آتا ہے تو سب کچھ کھو چکا ہوتا ہے شوگر، درد ،بلڈ پریشر کی پنڈ بن کے یہ لوگ ایئر پورٹوں سے سیدھے ہسپتالوں میں پہنچتے ہیں۔

میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ سیٹھی کا چہرہ مرجھایا ہو۔میرا خدا گواہ ہے اس کے میرے اور کشمیری کمیونٹی پر بڑے احسانات ہیں۔میں نے اسے ہمیشہ کسی نہ کسی کی نوکری کسی نہ کسی کے کفیل کے مسئلے پر تڑپتے دیکھا ہے جو لوگ سعودی عرب سے واقف ہیں انہیں علم ہے کفیل کس عفریت کا نام ہے۔لوگوں کو اللہ کے بعد کفیل کا ہی ڈر ہوتا ہے۔وہ چاہے تو آپ کو نواز دے اور چاہے تو سب کچھ ختم بھی کر دے۔کچھ اچھے ہوتے ہیں اور اتنے اچھے ہوتے ہیں کہ لوگ چراغ لے کر بھی ڈھونڈیں تو نہیں ملتے۔
اشفاق سیٹھی رفیق عارف جو کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہیں اور تیسرا جن کا ذکر پہلے بھی کر چکا ہوں یہ نسیم محمود ہیں۔پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی کے چھتر چھایا لوگ ہیں اللہ نے پاکستان کے بے شمار فرزندان کو اچھے اور نیک کام کرنے کی ہمت دی ہے۔

سردار اعظم عبدالطیف عباسی اشفاق خان سردار عارف راجہ زرین رئیس کشمیری سردار حفیظ باقی بے شمار ہیں ظاہر ہے میں نے ان کا ذکر کرنا ہے جن سے میرا واسطہ پڑا ہے۔پاک کشمیر گجرز فورم جب بنی تو ہمارا مقصد یہی تھا کہ برادری کی فلاح و بہبود کے لئے کام کیا جائے اس پلیٹ فارم سے ان گنت وظائف دیئے گئے حاجی بشیر چودھری طارق عبدالرحمن بھٹو ضمیر بجاڑ محفوظ مقبول رضا حافظ عبدالخالق صوفی منظور غرض کس کس کا نام لوں یہ سارے لوگ اس نیک کام میں جت گئے مجھے اس تنظیم کا چیئرمین بنایا گیا۔پھر اللہ کا کرم ہوا ہم نے پاکستان سے آنے والوں کی پذیرائی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی یہاں شبیر گجر کا نام نہ لوں تو بات مکمل نہیں ہوتی ۔چودھری نور عالم جب جدہ تشریف لائے تو ان کے اعزاز میں بے شمار تقریبات ہوئیں چودھری وزیر چودھری سردار چودھری حنیف اور دیگر دوستوں نے اس وضح دار شخص کا بھرپور استقبال کیا۔کبھی موقع ملا تو اس موضوع پر تفصیل سے لکھوں گا مجھے آج اس شخص کی بات کرنا ہے جو سب کے دکھ لئے جدہ سے لاہور پہنچ گیا ہے۔قارئین پردیس بڑی چیز ہے صابر شاہ نے کیا خوبصورت بات کی تھی کہ میری پاکستانیت کی بیٹری جب کمزور پڑتی ہے تو میں اسے چارج کرانے جدہ آ جاتا ہوں۔میں نے ان دوستوں کے ساتھ مل کر چودھری رحمت علی کی یاد میں بے شمار تقریبات منعقد کیں ۔ایک بار سخت گرمی اور طوفان کا موسم تھا تئیس مارچ کو ہم منا رہے تھے۔

عالم چنا کو مہمان خسوصی بنایا جب وہ وہاں پہنچے تو کہا میں تو سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتا دوستوں کو کہا کندھوں پر اٹھائین ان کو ایک بڑی کرسی پر بٹھایا اور انہوں نے اوپر جا کر چودھری رحمت علی کی یاد میں بڑی تقریب میں شرکت کی۔ ملک سرفراز کے ہوٹل میں تقریب تھی حی البوادی میں واقع اس ہوٹل نے بھی کیا کیا شخصیات دیکھی تھیں سردار عبدالقیوم سردار سکندر حیات مولانا سعید احمد مجددی چودھر نور عالم چودھری اسمعیل شعراء میں ڈاکٹر پیر زادہ قاسم شہزاد احمد اعتبار ساجد امداد نظامی ناصر زیدی۔دیگر اکابرین میں عطاء الحق قاسمی امجد اسلام امجد یہ سارے لوگ ہماری تنظیم حلقہ ء یاران وطن کے مہمان بنے۔جس کے بانی ممبران میں چودھری شہباز حسین ملک محی الدین مسعود پوری ملک محی الدین زردار شیر بہادر اور راقم خود شامل تھا۔

اشفاق سیٹھی دیگر دوستوں کے ساتھ ساتھ ہماری ہر کام میں معاونت کیا کرتے تھے۔کمال کا لباس پہننا لاہوری ویل کا کرتا سفید شلوار اور پنجابی کھسہ ہمارے اس دوست کا پسندیدہ لباس تھا۔اللہ انہیں صحت دے۔پاکستان آنے سے پہلے اپنی گاڑی چلایا کرتے تھے شوگر انہیں عرصہ ء دراز سے تھی بنی مالک میں گھر تھا ایک بار مجھے ان کے پاس رہنے کا موقع ملا مہمان نوازی ان پر ختم تھی جب کبھی مکان شفٹ کرنا ہوتا انہیں زحمت دی جاتی تھی اپنی گاڑی میں مزدور لا کر ہماری مشکل ختم کر دیتے تھے۔٢٠١٣ میں میرا پروگرام بنا کہ پاکستان چلا جائوں خان صاحب کا بھی حکم تھا کہنے لگے پاکستان بے شک چلے جائیں لیکن اقامہ ختم نہ کریں چودھری وزیر اور بھائی سردار کو کہا اور ایک انتہائی نیک نام سعودی یوسف الاشعری کے نام جملہ کفالت کرا دی میں ایک دو سال آتا جاتا رہا لیکن میں نے محسوس کیا یہ سودہ وارے کا نہیں۔چھوڑ کر مستقل آ گیا۔

اس بار ملے تو کہنے لگے میرے اللہ نے میری باں پھڑ لی ہے لندن والا بیٹا بھی سیٹ ہو گیا ہے۔آپ زرا سوچیں جس شخص کی پچپن سال کی عمر ہو اور وہ گاڑی چلتا ہو مرض شوگر کا ہو تو کتنی تکلیف دہ زندگی ہوتی ہو
گی جدہ سے دمام سولہ سو کلو میٹر ہے اپنی گاڑی چلا کر لے جاتے آج بات ہوئی تو بتانے لگے کہ میں نے بارہ سال اس کمپنی کے ساتھ کام کیا ہے اچھے ہی رہے ہیں۔یہ ان کی صبر اور قناعت کا مظاہرہ تھا ورنہ مجھے یہ پتہ چلا کہ کمپنی نے اونے پونے میں گاڑی خرید کر ایک مریض شخس کو پاکستان بھیج دیا ہے۔دوسرے دوست رفیق عارف کا پتہ چلا ہے کینسر سے لڑ رہے ہیں۔ دوستو! یہ کہانی ہر پاکستانی کی ہے ہر کشمیری کی ہے اللہ تعالی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی زندگیاں آسان فرمائے اور ان دونوں بھائیوں کو صحت کاملہ و عاجلہ دے۔آمین

Engineer Iftikhar Chaudhry

Engineer Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری