تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 10 دسمبر 2015 کو پاکستان کے شہر اسلام آباد میں چوتھی ہرٹ ایشیا کانفرنس کا ایعقاد عمل میں آیااس کانفرنس میں افغانستان کے صدر اشرف غنی اور ہندوستان کی وزیرِ خارجہ سشما سوراج کے علاوہ دیگر مہمانوں نے پاکستان تشریف لاکر شرکت کی۔ اس کانفرنس کا افتتاح وزیر اعظم نواز شریف اور افغان صدر اشرف غنی نے کیا جس میں ہندوستان کی وزیرِ خارجہ سمیت 10 ملکوں کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔
ان کے علاوہ 12 بین الاقوی تنظیموں نے بھی شرکت کی۔ہندوستان جو پاکستان کے خلاف سخت معاندانہ رویہ رو ارکھے ہوے تھا اور پاکستان پہلے ہی ساری دنیا کے سامنے ہندوستان کی پاکستانی امور میں مداخلت کے ثبوت بھی پیش کر چکا ہے۔ اس وجہ سے ہندوستان پرامریکہ برطانیہ اور غا لباََ فرانس ان تینوں ممالک کا شدید دبائو تھا کہ ہندوستان نواز شریف کی پر امن پالیسیوں کا مثبت جواب دے ۔ کیونکہ اگر خطے میں جنگ چھڑی تو دنیا تباہی کے گڑھے ؛پر پہنچ جائے گی۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سشما سوراج کے دورہِ پاکستان سے ہندو پاکستان تعلقات میںوکوئی اہم پیشرفت ہونے کاامکان کم ہی ہے۔
اس کانفرنس سے پہلے پاکستان اور ہندوستان کے سلامتی کے مشیروں کی 6 دسمبر 2015کوایک ملاقات بینکاک میں ہوچکی تھی۔جس میں مسئلہ کشمیر سمیت کئی امور پر گفتگو بھی کی گئی تھی اکثر تجزیہ نگار وںکی یہ رائے ہے کہ ایشیاکا دل کانفرنس سے پاک افغان بد اعتمادی کا خاتمہ نہیں ہو اہے۔اس کا اندازہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی انٹر نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی ( این ڈی ایف ) کے سربراہ رحمت اللہ نبیل پاکستان کے معاملے پر صدر اشرف غنی کے ساتھ پالیسی اختلافات کی بنیاد پر اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔
Ashraf Ghani and Nawaz Sharif
یہ استعفیٰ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب افغان حکومت کو حالیہ مہینون میں طالبان عسکریت پسندوں کے شمالی شہر قندوز پر قبضے اور کندھار کے ہوئی اڈے پر دھاوے کی شکل میں شدید قسم کے جھٹکے لگے چکے ہیں۔رحمت اللہ نبیل کے میڈیا پر بھجوائے گئے استعفے میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ چند ماہ سے بعض پالیسی معاملات پر نااتفاقی کی وجہ سے صدر نے ان کے کا م کرنے کی اہلیت پر نا قابلِ قبول قدغن لگائی ہوئی تھیں ۔جس کو صدر اشرف غنی نے منظور کر لیا ہے۔ اس سے ایک دن قبل اشرف غنی نے اسلام آباد میں ایشیا کا دل کانفرنس میں طالبا سے مذاکرات شروع کرنے پر آمادگی کی تھی۔اس پر بھی نبیل کو اعتراض تھا۔
تین اہم ممالک نے ہندوستان کو پاکستان کے ساتھ قیامِ امن پر مجبور کیا تھا ۔ان مغربی ممالک کے رہنمائوںنے ہندوستان کومجبور کیا کہ وہ اپنی سختی اور ناراضگی کی پالیسی کا خاتمہ کرے ۔عالمی دارالحکومتوں کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف افغانستان اور ہندوستان سمیت اپنے تمام ہی پڑوسی ملکوں سے حقیقت میں امن کے خوہاں ہیں۔ہندو پاکستان کے درمیاں حالیہ مذاکرات زیادہ ترواشنگٹن کے نئی دہلی پر دبائو کا نتیجہ بتایا جا رہا ہے ۔یورپ کے دو اہم اور با اثر ممالک نے مودی کو آسمان سے زمین پر لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔وہ ہندوستان جو آج سے چند دن پہلے تک پاکستان سے بات کرنے پر آمادہ نہ تھا اس نے اپنا موقف ان ممالک کے دبائو کے تحت تبدل کر کے مذاکرات کی میز پر آنا مان لیا۔
ایشیا کا دل کانفرنس سے پہلے خود مودی نے فرانس میں وزیراعظم پاکستان نواز شریف سے ملاقات کی۔ جو شائد بین الاقوامی دبائو کے تحت تھی۔اس کے بعد نا صرف مودی کو وزیر اعظم پاکستان کی خوشامد کرتے ہوئے دیکھا گیابلکہ ہندوستان کی وزیرِ خارجہ سُشما سوراج کا جارحانہ اور سخت رویہ بھی ان کے پاکستان کے دورے کے دورا ن شائستہ اور سنجیدہ دیکھا گیا۔ وزیر اعظم نواز شریف کے معاون خصوصی سر تاج عزیز کی سُشما سورج سے ملاقات بھی ایک افسانوی انداز رکھتی تھی۔جس نے ہند پاکستان کے عوا م کو بھی محوِ حیرت کر کے رکھ دیا تھا۔لوگ کہہ رہے تھے کہ کیا یہ وہ ہی سُشما سوراج ہیں جو کل تک پاکستان کے خلاف زہر میں بجھی شمشیر دکھائی دیا کرتی تھیں؟اس کانفرنس کے بعد نریندر مودی نے آئندہ سال سارک سربرا کانفرنس میں اپنی شمولیت کا بھی عندیہ دے دیا ہے۔ہندوستان کے اس مصنوی رویئے کو مبصرین سوائے دنیا دکھاوے کے کوئی اور نام نہیں دے رہے ہیں۔
Imran Khan and Narendra Modi
اس بات کا اندازہ اس سوال سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب عمران خان نے اپنے ہندوستان کے دورے میں نریندر مودی سے ملاقات کے دوران ہند و پاکستان کی ٹیموں کی کرکٹ سیریز کا سوال اٹھایا تو مودی نے مسکراہٹ کے سوائے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا ۔جس سے ہندوستان کے پاکستان سے نفرت کے ارادوں کا بخوبی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔مستقبل میں ہندوستان پر سے جیسے ہی مغربی دبائع کم ہو گا اس کے رویئے کی لچک ساری دنیا دیکھ لے گی۔ کیونکہ ہندوستان ساری دنیا پر اپنی کہنے کو غیر جانبدار انہ مگر متعصبانہ حکمت عملی کی وجہ سے بد نام ہوچکا ہے۔اس وقت افغان صدر اشرف غنی اور نریندر مودی دونوں اپنے اپنے شطرنج کے مہرے بڑے طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔اشرف غنی کی باڈی لینگویج بھی ان کی چغلی کھا رہی تھی۔
وزیر اعظم پاکستان میں محمد نواز شریف نے جس طرح افغان صدر اشرف غنی کا اسلام آباد ائیر پورٹ پر ا ستقبال کیا، وہ قابلِ دید واقعہ تھا۔جس میں وزیر اعظم کاتدبردیدنی تھا اسی طرح پاکستان میں سُشما سوراج کو جس طرح کا پروٹو کول دیا گیا وہ بھی مثالی تھا۔دونوں رہنمائوں کو پاکستان میں بہترین دوستوں کا سا پرٹووٹ کول دیا تھا۔ سُشما سوراج جس طرح افسانوی انداز میں سر تاج عزیز سے ملیں ۔اُس نے لوگوں کے اذہان میں کئی مخمصے اور سولات پیدا کر کے رکھ دیئے ہیں۔ جاپان کے سفیر کے اپنے شہنشاہ کی سال گرا پردی جانے والی ضیافت کے موقعے پر مہمانوں کے درمیان سُشما سوراج اور سرتاج عزیز کا پر جوش شیک ہینڈ موضوع بحث بنا رہا۔دوروزبعد ہونے والے اس پروگرام میں ہند و پاکستان تعلقات سب سے زیادہ موضوعِ بحث رہا۔جس پر غیر ملکی سفارت کاروں نے بھی تجسُس کا اظہا ر کرتے ہوے اسے خطے کے لئے اہم پیش رفت قرار دیا اور شرکا نے قہقہوں کی گونج میں شیک ہنڈ پر اپنے اپنے دلچسپ ریمارکس بھی دیئے۔
پاکستان کو خاص طور پر ہندوستان کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے بڑے تدبر سے کام لینا ہوگا۔کیونکہ حالات بتا رہے ہیں ہندوستان کینیت میں کہیں نہ کہیں کھوٹ ضرور ہے۔مودی دنیا میں اپنی بگڑتی ہوئی ساکھ کو بنانے میں مصروف ہے۔تودوسری جانب مغرب کی بھی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا ارادہ رکھتا ہے۔پاکستان کی خاموشی نے اسے اچھے ثمرات سے نواز دیا ہے۔ہم سجھتے ہیںایشیا کا دل کانفرنس خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات کی بہتری کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔مگر اس سلسلے میں ہمیں ہندوستانی قیادت کے خلوص کی بے ضرورت پڑے گی۔
Shabbir Khurshid
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir23khurshid@gmail.com