لاہور (جیوڈیسک) پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر قانونی تقاضے پورے ہوئے تو آسیہ بی بی کو ملک چھوڑنے سے روکا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب سخت گیر مسلمان اس مسیحی خاتون کی موت چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ کی طرف سے رہائی کے حکم نامے کے باوجود آسیہ بی بی ابھی تک جیل ہی میں ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا ہے کہ فیصلے پر نظرثانی کے اپیل کے بعد آسیہ بی بی کی قسمت دوبارہ سپریم کورٹ کے ہاتھ میں ہے۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ ان کا خصوصی انٹرویو!
ڈی ڈبلیو: ایسے مظاہرین کے خلاف کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں، جنہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے بعد پورے ملک کا محاصرہ کر لیا تھا؟
فواد چودھری: مظاہرے ختم ہو چکے ہیں اور ہمارا ان کے ساتھ احتجاجی مظاہرے ختم کرنے کا معاہدہ ہوا ہے۔ ہمارا بنیادی مقصد یہ تھا کہ محاصرہ طاقت کے استعمال کیے بغیر ختم کروایا جائے۔ ہمارے پاس دو راستے تھے۔ ان مظاہرین سے ریاستی طاقت کے ساتھ نمٹا جائے یا پھر معاہدے کے لیے مذاکرات کیے جائیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ہم نے اپنے مقاصد طاقت کا استعمال کیے بغیر حاصل کیے ہیں۔
ڈی ڈبلیو: لیکن معاہدہ کرنے کے بعد آپ کی حکومت نے مبینہ طور پر تحریک لبیک کے سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر لیا ہے؟
فواد چودھری: معاہدہ ایسی گرفتاریوں سے روکتا نہیں ہے۔ جنہوں نے عوام کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ کیا اور قانون کی خلاف ورزی کی تھی ان سے نمٹنا ضروری ہے اور ہم ان سے نمٹیں گے۔
ڈی ڈبلیو: حکومت نے تحریک لبیک کے ساتھ معاہدے میں آسیہ بی بی کو ملک سے باہر نہ جانے دینے ایسے اقدامات پر اتفاق کیا ہے۔ اس کی اب کیا حیثیت ہے؟
فواد چودھری: معاہدہ یہ نہیں کہتا کہ حکومت کو قانونی اقدامات اٹھانے ہیں۔ متاثرہ فریقین کو قانونی کارروائی خود کرنا ہو گی۔ اگر قانونی تقاضے پورے ہو جاتے ہیں تو آسیہ بی بی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا جائے گا۔
ڈی ڈبلیو: عمران خان حکومت پر شدید تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ انتہاپسندوں کے مطالبات کے سامنے جھک گئی ہے۔ آپ اس کا کیا جواب دیں گے؟
فواد چودھری: میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ ہمیں ایک صورتحال کا سامنا تھا اور ہمیں اس سے نمٹنا تھا۔ ہماری ترجیح تشدد سے پرہیز تھا اور ہم نے یہ مذاکرات سے حاصل کیا۔ اصل میں ماضی کی حکومتیں انتہاپسندوں کے سامنے جھکی تھیں، ہم نہیں۔ انتہاپسندی پاکستان میں ایک حقیقت ہے۔ پچھلی حکومتوں نے اس مصیبت کا مقابلہ کرنے یا اسے ختم کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لیے لازمی اقدامات اٹھائیں گے۔
انتہاپسندی صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک کا بھی مسئلہ ہے۔ بھارت اس کا سامنا کر رہا ہے، امریکا کر رہا ہے، اسی طرح کئی دیگر یورپی ممالک بھی ہیں۔ ہمیں مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے ملکی سطح پر بھی اور اقوام متحدہ سطح پر بھی ضرورت ہے اور ہم کریں گے۔
ڈی ڈبلیو: لیکن کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ آسیہ بی بی کیس کی وجہ سے پاکستان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے؟
فواد چودھری: جب بھی اس طرح کے مظاہرے ہوتے ہیں تو ملک متاثر ہوتا ہے۔ جیسے کہ میں نے پہلے کہا، صرف پاکستان کو ہی اس مسئلے کا سامنا نہیں ہے۔ انتہاپسندی سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی برادری کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی اور ہمیں مقامی سطح پر بھی اس سے نمٹنا ہو گا۔