اسلام آباد (جیوڈیسک) آسیہ بی بی کے بارے میں یہ اطلاعات ہیں کہ انہیں ملتان جیل کے رہا کرنے کے بعد بیرون ملک روانہ کر دیا گیا ہے۔
ملتان کے سینیر صحافی جمشید رضوانی نے بتایا تھا کہ آسیہ بی بی کو طیارے کے ذریعے اسلام آباد روانہ کیا گیا۔ جب کہ ایئرپورٹ پر ان کا استقبال کرنے کے لیے بعض غیر ملکی بھی موجود تھے۔
بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ آسیہ بی بی کو ملتان جیل سے رہا کرنے کے بعد راولپنڈی کے نورخان ایئر بیس لایا گیا جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ بیرون ملک روانہ ہو گئیں۔
سوشل میڈیا پر بھی آسیہ بی بی کی نیدرلینڈز روانگی کی خبریں گردش کر رہی ہیں اور کئی لوگ اس بارے میں ٹویٹ بھی کر رہے ہیں۔ عابد حسین کی ایک ٹویٹ میں بی بی سی کے حوالے سے روانگی کی خبر دی گئی ہے۔
یہ بھی بتایا گیا کہ آسیہ بی بی کے خاندان کے افراد بھی ان کے ساتھ گئے ہیں اور انہیں لے جانے والے طیارے میں ایک یورپی ملک کے سفارت کار بھی موجود تھے۔
اسی بارے میں یورپی پارلیمنٹ کے صدر انتونیو تجانی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ آسیہ بی بی جیل سے رہا ہو گئیں ہیں جس پر ہم پاکستانی حکومت کے شکرگزار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ان سے اور ان کے خاندان سے یورپی پارلیمنٹ میں ملنے کا منتظر ہوں۔
اپنی ایک اور ٹویٹ میں انتونیو تجانی نے کہا ہے کہ میں نے پاکستانی حکام سے کہا ہے کہ انہیں ضروری سفری دستاویزات فراہم کر دی جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کا قانون ایسے افراد کو تحفظ فراہم کرتا ہے جنہیں اپنے عقیدے کی بنا پر زندگی کے خطرات لاحق ہوں۔
تاہم پاکستانی حکام ان خبروں کی تردید کر رہے ہیں کہ آسیہ بی بی نیدر لینڈز چلی گئی ہیں۔ صحافی عادل شاہزیب نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے خصوصی نائب برائے میڈیا افتحار درانی سے بات کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ آسیہ بی بی ابھی پاکستان میں ہی ہیں۔
دوسری جانب تحریک لبیک پاکستان نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ آسیہ بی بی کی رہائی اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے جو حکومت نے ہم سے کیا تھا۔ معاہدے کی رو سے اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنا ضروری ہے تاکہ وہ بیرون ملک نہ جا سکے۔
اس سے قبل خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے دو سرکاری اہل کاروں کے حوالے سے یہ خبر جاری کی کہ’’ آسیہ بی بی کو ایک دوسرے صوبے کے نامعلوم مقام سے رہا کرنے کے بعد سکیورٹی وجوہ کی بنا پر اسلام آباد منتقل کردیا گیا ہے‘‘۔
ایک اہل کار نے بتایا کہ سیکیورٹی کے سخت حصار میں آسیہ بی بی کو ہوائی جہاز کے ذریعے دارالحکومت لایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایئرپورٹ جانے والی سڑک کی سکیورٹی فوج نے سنبھال رکھی تھی۔
گذشتہ ماہ حکام نے بتایا تھا کہ دو قیدیوں کو گرفتار کیا گیا تھا، جو مبینہ طور پر اُن کا گلا گھونٹنا چاہتے تھے۔ تب سے پنجاب میں واقع اس تنصیب کی سکیورٹی اضافی پولیس فورس اور فوج نے سنبھال لی تھی۔
آسیہ بی بی کو سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر کو توہین مذہب کے مقدمے میں بری کر کے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد’ تحریک لبیک‘نے فیصلے کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا تھا اور مختلف شہروں میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔
ہنگامہ ختم کرانے کے لیے حکومت نے’ تحریک لبیک‘سے جو معاہدہ کیا، اس میں وعدہ کیا گیا تھا کہ آسیہ بی بی کا نام ’ایگزٹ کنٹرول لسٹ‘ میں ڈالا جائے گا۔ بعد میں وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصي گفتگو میں کہا کہ آسیہ بی بی کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا جا رہا۔
آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک جان کو لاحق خطرے کی وجہ سے پہلے ہی بیرون ملک منتقل ہو چکے ہیں۔
آسیہ بی بی پر توہین مذہب کا الزام جون 2009ء میں لگایا گیا تھا۔ ایک سال بعد انھیں ایک عدالت نے سزائے موت سنائی اور لاہور ہائیکورٹ نے اس سزا کو برقرار رکھا لیکن بعد میں سپریم کورٹ نے ان کی اپیل کی سماعت کے بعد انھیں بری کر کے رہا کرنے کا حکم دیا۔