ایشیا کا پہلا دیسی ساختہ ہیلی کاپٹر تیار

domestically-made helicopter

domestically-made helicopter

پاکستان میں ہنر یافتہ افراد کی کوئی کمی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اس سر زمین سے تعلق رکھنے والے نوجوان ہر میدان میں آئے روز ملک کا نام روشن کرنے میں مصروف ہیں۔

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے تعلق رکھنے والے قاضی طفیل نے کئی سالوں کی مسلسل کاوشوں کے بعد حال ہی میں ایک ہیلی کاپٹر تیار کر لیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے قاضی طفیل کا کہنا تھا کہ انہوں نے سن 1978میں اپنے بھائی کے ساتھ مل کر جہاز بنانے کا ارادہ کر لیا تھا، جس میں وہ کچھ سال بعد کامیاب ہوئے تھے۔ موٹر کار کے انجن سے چلنے والے الٹرا لائٹ ایئر کرافٹ یا جہاز کی اڑان کا وہ مختلف مواقع پر مظاہرہ بھی کر چکے ہیں۔

اپنی نئی ایجاد اور اس پر آنے والی لاگت کے بارے میں قاضی طفیل کا کہنا تھا، ’’اس ہیلی کاپٹر پر ابھی تک قریب 35لاکھ روپے کی لاگت آئی ہے، اس میں بہت تاخیر بھی ہوئی جس کی بڑی وجہ اتنی بڑی رقم تھی، جس کے انتظام میں کافی وقت لگا۔‘‘

قاضی طفیل کہتے ہیں کہ اس بڑی رقم کا انتظام انہوں نے اپنا ایک آبائی گھر فروخت کر کے کیا کیونکہ یہ ایجاد نہ صرف ان کے بھائیوں بلکہ ان کے والد کی بھی خواہش تھی، جس میں اب وہ کامیاب ہو چکے ہیں۔ اس سنگل سیٹر ہیلی کاپٹر کی تیاری کے بارے میں قاضی طفیل کا کہنا ہے، ’’اس کی تیاری میں کامیابی مجھے میرے بھائیوں اور بھتیجوں کی مدد سے حاصل ہوئی، ہر کوئی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا، کیونکہ اب اس قسم کی ایجادات ہمارا خاندانی مشعلہ ہیں۔‘‘

طفیل کے بڑے بھتیجے قاضی ایمل کہتے ہیں کہ ان کے چچا کا بنایا گیا ہیلی کاپٹر ایشیا میں تیار کردہ اپنی طرز کا واحد ہیلی کاپٹر ہے۔ اس کو تیار کرنے کے لیے انہوں نے دن رات محنت کی۔ اپنے خاندان کے اس کام کے ساتھ لگاؤ کے بارے میں ان کا کہنا تھا، ’’میرے تایا قاضی فرہاد اپریل 2004 ء میں اپنے ہی تیار کردہ جہاز میں اڑان کے دوران حادثے میں وفات پا گئے تھے، جو ان کی ایک بڑی قربانی تھی اور ہمارے لیے یہ غم کے ساتھ ساتھ مشعل راہ ثابت ہوئی۔‘‘

ایمل گوکہ صرف میٹرک تک ہی تعلیم حاصل کر سکے تھے لیکن اپنے چچا قاضی طفیل کی نظر میں کسی کوالیفائیڈ انجینئر سے کم نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے بنائے گئے ہیلی کاپٹر کے انجن کی ڈیزائنگ ایمل ہی سے کرائی گئی اور تیاری کے دوران زیادہ تر پرزہ جات منگوانے کی خاطر جرمنی، اٹلی اور روس کو فوقیت دی گئی

اس دیسی ساختہ ہیلی کاپٹر کی مستقبل میں اہمیت اور فوائد کے بارے میں قاضی طفیل کا کہنا تھا، ’’اس کے بہت سے فوائد ہوں گے۔ ایک تو پاکستان کے پاس اپنی ٹیکنالوجی آ جائے گی، جس کے لیے ہم کروڑوں روپے خرچ کرتے تھے اور دوسرا یہ کہ اس کو ٹریفک پولیس کے علاوہ بطور ائیر ایمبولینس بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر ملک میں حالیہ واقعات کو نظر میں رکھیں تو اس سے بے پناہ کام لیے جا سکتے ہیں۔‘‘

قاضی خاندان اگر ایک طرف ملک میں فضائی ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے کوشاں ہے تو دوسری طرف وہ حکومت سے نالاں بھی نظر آ رہا ہے کیونکہ حکومت کی طرف سے ابھی تک اس کی کوئی مدد نہیں کی گئی تاہم سول ایوی ایشن کی طرف سے ان کو اعزازی یونیفارم ضرور دی گئی ہے، جس کا استعمال وہ اکثر کرتے نظر آتے ہیں۔