تحریر: سید انور محمود کسی دانشور سے دریافت کیا گیا کہ حضرت! کرپشن کی تعریف کیا ہے؟ دانشور نے بہت ہی سادہ زبان میں بلا تامل جواب دیا کہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا کرپشن ہے۔ اگر اس بات کو من و عن مان لیا جا ئے تو ہمارے ملک کی پوری کی پوری سول اور فوجی بیوروکریسی اور سب کے سب سیاستدان کرپٹ قرارپاتے ہیں۔ کرپشن صرف مالی بد عنوانی یا وسائل کے غلط استعمال کا نام نہیں ہے بلکہ قانون کے دائرے سے نکل کے کوئی کام کرنا یا قانون کے تقاضے کے مطابق کام نہ کرنا بھی کرپشن ہی کے ذیل میں آتے ہیں۔جمہوریت میں قانون کی حکمرانی اور جواب دہی کی بدولت سمجھا جاتا ہے کہ جمہوریت میں کرپشن کم ہو گی لیکن بد قسمتی سے پاکستان کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔
پاکستان میں ایک طویل عرصے تک فوجی حکمراں رہے ہیں، ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک سب ہی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیاہے۔ اس وقت بھی پاکستان میں ایک سابق صدر، دو سابق وزرائے اعظم سمیت ہزاروں سیاستدانوں، فوجی افسروں، بیورو کریسی میں کرپشن کرپشن کا کھیل کھیلنے والوں کے خلاف مقدمات موجود ہیں۔ کرپٹ عناصر کی بیخ کنی کیلئے”نیب” کا ادار ہ بھی موجودہے لیکن لگتا ایسا ہے کرپشن ہر ادارے کی رگ رگ میں سماچکا ہے، چاہے وہ ادارے سول ہوں یا فوجی۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کے پاکستان میں جمہوریت ہو یا آمریت کرپشن ہر حال میں موجود رہی ہے۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ پاکستان کا سیاسی نظام چند لوگوں کے گرد گھومتا ہے اور نظام کے بدلنے کے باوجود نظام سے فائدہ اٹھانے والے وہی رہتے ہیں۔
Mian Raza Rabbani
چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی دور طالب علمی ہی میں سیاست سے دلچسپی کے باعث پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستہ ہوئے اور یہ سفرآج تک جاری ہے، 1993ء سے سینٹ کے رکن ہیں رضا ربانی سینیٹ کے ساتویں، پیپلزپارٹی کے چوتھے اورسندھ سے تیسرے چیئرمین سینٹ ہیں۔ بدھ 30 ستمبر 2015ء کو وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی میں آل سندھ تقریری مقابلے سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے فرمایا کہ میں مانتا ہوں کہ سیاستدانوں نے کرپشن کی اس لیے اُن کا دفاع نہیں کرتا تاہم پاکستان میں کوئی مقدس گائے نہیں، سول و فوجی بیوروکریسی میں کوئی بھی شفاف نہیں
احتساب ہو تو سب کا ہونا چاہیئے، نیب کے قانون کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو ادارہ سب کا احتساب کررہا ہے اس کا بھی احتساب ہونا چاہیئے۔ تسلیم کرتاہوں کہ پیپلزپارٹی میں بھی کرپٹ لوگ موجود ہیں، کرپشن کے متعلق ایک کمیٹی قائم کی جائے جس کا مقصد صرف کارروائیوں پر نظر رکھنا ہو، کرپشن کاخاتمہ قانون کے دائرے میں رہ کر کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے مزید کہا کہ وہ دن گئے جب سیاستدانوں کیلئے خصوصی عدالتیں بنائی جاتی تھیں، خصوصی عدالتیں ضرور بنائیں مگریہ خصوصی عدالتیں بھی سب کےلئے ہونی چاہئیں۔
Asif Ali Zardari
رضا ربانی کی بدھ 30 ستمبر 2015ء کو صحافیوں سے یہ گفتگو دراصل سابق صدر آصف زرداری کی 16 جون 2015ء کی اُس تقریر کا دفاع ہے جس میں آصف زرداری نے نام لیے بغیر فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اُن کو دیوار سے لگانے اور اُن کی کردار کشی کرنے کی روش ترک کردیں ورنہ وہ قیام پاکستان سے لےکر آج تک کے جرنیلوں کے بارے میں وہ سب کچھ بتائیں گےکہ وہ (فوجی جرنیل) وضاحتیں دیتے پھریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں کے راستے میں رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں ورنہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔
اُنھوں نے دھمکی دی کہ جب بھی پیپلز پارٹی نے ہڑتال کی کال دی تو خیبر سے لے کر کراچی تک جام ہو جائے گا۔حالات کے پیش نظر پاکستان کی کسی چھوٹی بڑی سیاسی جماعت نے زرداری کے بیان کی حمایت نہیں کی۔ بلکہ میثاق جمہوریت میں ان کے ساتھی وزیراعظم نواز شریف نے تو روس کے دورے پر گئے ہوئے جنرل راحیل شریف کو فون کرکے اپنی صفائی بھی پیش کی تھی اورآصف زرداری کے ساتھ طے شدہ ملاقات بھی نہیں کی۔ آصف زرداری کوجب کسی طرف سے کوئی حمایت نہ ملی تو ملک چھوڑکرچلے گئے۔
دو ہزار آٹھ سے دو ہزار تیرہ تک پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت کا یہ ریکارڈ رہا ہے کہ اس میں پاکستان کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طریقے سے اقتدار میں شامل رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا یہ بھی ریکارڈہے کہ قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر منتخب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو چند سیکنڈ کی سزا کے بعد نہ صرف وزارت عظمیٰ بلکہ پانچ سال کے لئے انتخابات لڑنے کے لیے بھی نااہل قرار دے دیا گیا۔
PPP
دنیا کی سیاسی تاریخ میں میں اس سے پہلے ایسی کوئی مثال موجود نہیں تھی ۔ ایک اور ریکارڈ بھی اسی زرداری حکومت کو جاتا ہے کہ اس سے زیادہ بدعنوان حکومت پاکستان میں اس سے پہلے کوئی نہ تھی۔ پیپلز پارٹی حکومت کے پانچ سالہ دور میں دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ، بدترین کرپشن ، بری گورننس، طویل لوڈشیڈنگ اور غربت کے ساتھ اندرونی و غیر ملکی قرضوں میں بھی اضافہ ہوا ۔ مشرف دور تک بیرونی قرضے 34ارب ڈالر تھے جو پیپلز پارٹی کےپانچ سالہ دور حکومت میں دگنے ہوگئے۔ ڈالر 62 روپے سے 100 روپے کا ہوگیا، ملک کے تمام ادارے تباہ ہوگئے۔ خود کش دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی یلغار نے کوئٹہ اور پشاور جیسے بڑے شہروں کو درہم برہم کرکے رکھ دیا تھا۔
آصف زرداری اور ان کی جماعت نے نہ صرف اپنی بدعنوانیوں سے ملک کے سول اداروں کو تباہ کیابلکہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو بھی کرپشن کرنے کا پورا پورا موقع دیا۔ سابق جنرل اشفاق پرویز کیانی کو 29 نومبر 2007ء کو سابق جنرل پرویز مشرف کی جگہ آرمی چیف لگایا گیاتھا۔ 24 جولائی 2010ء کو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اُن کی ملازمت میں تین سال کی توسیع کی جس کی اس سے قبل مثال نہیں ملتی۔ اپریل 2015ء میں چھ سال تک پاکستان کے ڈی فیکٹو حکمران رہنے والے اس طاقتور جنرل کو اسلام آبادکے بینظیرانٹرنیشنل ائیر پورٹ پر بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا۔
اُن کوروکنے کی وجہ، کرپشن کے الزامات بتائے جاتے ہیں جو اُن کے بھائیوں نے اُن کے دور حکمرانی میں کی۔جنرل کیانی کے تین بھائی ہیں، ان میں بابر کیانی اور کامران کیانی کاروبار سے منسلک ہیں اور اُن پر یہ الزامات لگے کہ انہوں نے اپنے بھائی کے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے ٹھیکے اور منصوبے حاصل کیے۔ کامران کیانی ایک کنسٹرکشن کمپنی کے مالک ہیں جن کے پاس لاہور رنگ روڈ کی تعمیر کا ٹھیکہ تھا۔ اپنے بھائی کی ریٹائرمنٹ کے بعد کامران کیانی خاندان سمیت دبئی شفٹ ہوگئے جس پر اُن افواہوں کو اور تقویت ملی کہ وہ بھاری بھرکم رقم کے ساتھ بیرون ملک منتقل ہوگئے ہیں، کرپشن کے یہی الزامات جنرل کیانی کے بیرون ملک روانگی میں حائل ہوئے۔
Corrupt officers
پاکستان میں نیشنل ہائی وئے اتھارٹی، قومی احتساب بیورو، وزارت تعلیم، وزارت بجلی و پانی، سی ڈی اے، نادرا، کراچی پورٹ ٹرسٹ، نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو، اور وزارتِ مواصلات جیسے 23 سول محکمے کرپٹ افسروں کےلیے سونے کی چڑیا ثابت ہوتے رہے ہیں۔یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان محکموں میں کلیدی عہدوں پر فائز رہنے والے ہمارے حاضر سروس اور سابق فوجی افسران کسی بدعنوانی میں ملوث نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو فوج کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیتی، ورنہ جمہوریت اب تک پاکستان کو ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہوتی۔
کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے مگر پاکستان کے جمہوری حکمرانوں کا یہ مسئلہ ہے کہ انہیں جس قدر بھی کام کرنے کا موقع ملاہو، وہ اس دوران اپنی اور اپنے لوگوں کی جیبیں بھرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ موجودہ نواز شریف دور کو ہی دیکھ لیجئے، میٹرو بس سے بجلی کے منصوبوں تک جتنے بھی منصوبے ہیں اُن کی اصل کہانیاں سامنے آنے لگی ہیں۔ تاہم یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ جمہوری حکومتوں کی کرپشن اور بدعنوانی کا علاج فوجی حکومت یا سابق فوجیوں کے زیرانتظام اداروں کی کارروائیاں نہیں بلکہ جمہوری اداروں کا تسلسل اور خوداحتسابی کا آئینی انتظام ہے۔
آصف زرداری کے چہیتے رضا ربانی کا اصل مقصد اپنے گروُ آصف زرداری اور ڈاکٹر عاصم جیسی بڑی مچھلیوں کو بچانا ہے۔ آج جو وہ کہہ رہے ہیں کہ کرپشن کےمتعلق ایک کمیٹی قائم کی جائے جس کا مقصدان کارروائیوں پرنظر رکھنا ہو، کرپشن کاخاتمہ قانون کے دائرے میں رہ کرکرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات وہ بہت پہلے بھی کرسکتے تھے، وہ 1993ء سے سینیٹر ہیں۔ پاکستان میں ہرشخص کرپشن کے خلاف ہے یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے نوے فیصد وہ ہیں جنہیں کرپشن کے مواقع نہیں ملتے۔ سیاستدانوں، حکمرانوں اور سول اورفوجی افسروں کو چونکہ بہت مواقع ملتے ہیں تو اُنہیں ضائع کرنا اُن کے نزدیک گناہ کبیرہ ہے۔
Karachi Operation
آپریشن ضرب عضب اور کراچی آپریشن کے بعداگرچہ عوام فوج کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن حاضر سروس اور سابق جرنیلوں کے خلاف بھی بلاامتیاز کارروائی ہونی چاہیئے۔ سابق جنرل اشفاق پرویز کیانی کو بیرون ملک جانے سے روکنا ہی کافی نہیں اور نہ ہی “سخت سرزنش ” کافی ہے ۔بدعنوانی چاہے سول اداروں میں ہو یا فوج میں اُس کا احتساب لازمی ہے اور الزام ثابت ہونے پرسزا بھی ضروری ہے۔ اگر آپ آصف زرداری اور رضا ربانی کے بیانات پر غور کریں تو دونوں کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ کرپشن کرنے والوں کو پکڑو، بلکہ مطالبہ یہ کیا جارہا ہے کرپشن کرنے والوں کو نہ پکڑو جبکہ آصف زرداری اور سابق جنرل اشفاق پرویز کیانی دونوں ہی بدعنوان ہیں۔ میاں رضا ربانی کو گھبرانے کی ضرورت نہیں اُن کے گروُ آصف زرداری کو کچھ نہیں ہوگا کیونکہ وہ اپنے جرائم کےثبوت کبھی نہیں چھوڑتے۔ آصف زرداری ہوں یا سابق جنرل کیانی، یا کوئی اور بدعنوان بے فکر رہیں کیونکہ وہ چین میں نہیں رہتے۔
صدر ایوب خان کے دور میں واہ کے آرڈنینس کمپلیکس کی تعمیر کی گئی تو چین کے ایک وفد نے اس عمارت کا دورہ کیا، وفد نے ایک کمرے کی چھت کو ٹپکتے دیکھا، میزبان نے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا، “عمارت ابھی نئی نئی بنی ہے اسلیے ٹپک رہی ہے”۔ یہ سن کر چینی وفد کے ایک رکن نے استہزائیہ انداز میں کہا، “شروع شروع میں ہماری عمارتیں بھی ٹپکتی تھیں، پھر ہم نے بدعنوانی کے مرتکب ایک ٹھیکیدار کو سرعام گولی سے اُڑا دیا، اُس دن کے بعد سے ہماری عمارتیں نئی ہوں یا پرانی کبھی نہیں ٹپکیں”۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ چین کی طرح سرعام سزائے موت دی جائے بلکہ اس مثال کا مقصد یہ ہے کہ بے لاگ احتساب ہی بدعنوانی کی روک تھام کر سکتا ہے۔