تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم لیجئے آصف علی زرداری وطن واپس آگئے ہیں ،یہ اپنے تئیں کیوں ڈیڑھ سال مُلک سے باہر رہے؟؟ تو یہ بھی جان لیجئے کہ گزشتہ سال 15جون 2015کوفاٹا کے پارٹی رہنماو ¿ں اور اپنے جیالے اور جیالوں سے خطاب کے دوران بلاول ہاو ¿س اسلام آباد میں پاکستان پیپلزپارٹی کے موجودہ طاقتورترین شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے عالمِ جذبات میں پاک فوج اور کچھ خاص اداروں سے متعلق بہت کچھ کہا تھا اُس کی بازگشت ابھی کم تو ضرور ہوگئی ہے مگر ختم نہیں ہوئی ہے یعنی یہ کہ آج بھی سب کو سب کچھ یاد ہے اور معلوم ہے کہ زرداری نے پندرہ جون کو مُلک کے مخصوص اداروں سے متعلق اپنے خاص لب و لہجے میں شدتِ جذبات میں کیا کچھ نہیں کہاتھااور اُن کااُس وقت وہی کہا سُنا تواِن کی خود ساختہ جلاوطنی کی وجہ بناتھا۔اَب جبکہ اِس بات کو ڈیڑھ سال گزرچکے ہیں اور حالات زیادہ نہیں تو کچھ تبدیل ضرور ہوچکے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے نام کے ساتھ اَب سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کا اضافہ ہوگیاہے اور آج اُن کی جگہہ نئے آرمی چیف جنرل جاوید قمر باجودہ اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں تویوں آج زرداری کی وطن واپسی ممکن ہوئی ہے۔ اِس موقع پر راقم الحرف کو سوفیصد یقین ہے کہ اگر آج بھی جنرل راحیل شریف اپنی ذمہ داریوں پر معمورہوتے تو زرداری کبھی بھی وطن واپس نہیں آتے کیونکہ اِنہیں بھی اِس بات کا یقین ہے کہ یہ جنرل راحیل شریف کے ہوتے ہوئے کبھی بھی مُلک واپس نہیں آسکتے تھے۔
بہرحال ..!! زرداری کی یوں وطن واپسی پر ایک خام خیال یہ بھی پروان چڑھ رہا ہے کہ آصف علی زرداری کی وطن واپسی کے درپردہ کچھ خاص لوگوں کا بڑاہاتھ ہے جن کی دونوں جانب سے کی جانے والی کوششوں سے زرداری کی واپسی ممکن ہوئی ہے اوراَب زرداری اپنے لشکرکے ساتھ وطن واپس لوٹ آئے ہیںتو دیکھتے ہیں کہ اَب یہ موجودہ مُلکی سیاست میں اپنے قول و فعل اورکردار و عمل سے کیا کیا گل کِھلاتے ہیں..؟؟ آج جہاں اِن دِنوں پارلیمنٹ سے لے کر مُلک کی گلی کوچوں بازاروں اور شاہراہوں میں سیاسی گرماگرمی او رذاتی لڑائیوں کا مقابلہ جاری ہے،یہ سیاسی اور ذاتی کھینچاتانی اور ماراماری کدھر جاکررکتی ہے،نہیں معلوم ہے، حکومتی وزراءاور اپوزیشن کے نئے پرانے سیاسی کارندے آستینیں چڑھاکر منہ پھاڑہاتھ جھاڑ مقابلے کے لئے کمر بستہ ہوچکے ہیں،الیکشن 2018سے قبل برسرِاقتدار اور اپوزیشن جماعتوں کے کرتادھرتاو ¿ں کا یہ غیرسیاسی اور غیرسنجیدہ پن یہ ظاہر کررہاہے کہ جیسے اِن سب نے اگلے انتخابات میں اپنی اپنی کامیابیوں کے لئے یہ سیاسی ڈرامہ بازی رچارکھی ہے۔
یعنی یہ کہ ابھی سے ہی سب کی توجہ الیکشن 2018ءمیں کامیابی کے حصول پر مرکوز ہے ایسے میں اَب کوئی یہ نہیں چاہتاہے کہ یہ اپنی توانائی مُلک اور عوام کی فلاح وبہبود کے لئے خرچ کرے گوکہ مُلکی ایوانوں سے لے کر اگلی کوچوں تک پھیلے ہوئے برسراقتدار اور اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی بہادر لیکی اور جیالے و جیالیاں سب ہی آپس میں لڑائی جھگڑوں میں ایسے مصروف ہیں جیسے اِن کی یہ لڑائی جھگڑے اِنہیں کامیاب کروائیں گے اور یہ عوام کے دُکھ دردکا مداواکئے بغیر اِس طرح اگلے میں پھر کامیاب ہوکرمسندِ اقتدار کی کرُسی پر براجماہوجائیں گے یہ تو آنے والاوقت ہی بتائے گا کہ مسائل اور بحرانوں کے دلدل میں دھنسی پاکستانی قوم کِسے بادشاہت کے تحت پر بیٹھاتی ہے اور کِسے خاک چھاننے اور جوتیاں چٹخانے کے لئے چھوڑدیتی ہے قبل اِس کے کہ ایسی نوبت آئے ابھی سے برسراقتدار اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو دستِ گربیان ہونے کے بجائے اپنا اپنا خود احتساب کرناچاہئے کہ اِن کی آپس کی لڑائی جھگڑوں سے اقتدار نہیں ملے گا بلکہ قوم کو مسائل کی دلدل سے نکالنے اور اِسے طرح طرح کے بحرانوں سے نجات دلوانے سے ہی اقتدار ممکن ہوسکے گاورنہ کسی کے حصے میں لڈو تو کسی کے ہاتھ میں خاک ہوگی۔
PPP
تاہم آصف علی زرداری جو پچھلے سال 24جون 2015ءکو اپنی ایک جذباتی تقریر کے بعد خودساختہ جلاوطن پر روا نہ ہوگئے تھے آج لگ بھگ ڈیڑھ سال بعد23دسمبر کو پاکستان پیپلزپارٹی کے پاورفل شریک چیئرمین اورانتہا درجے کے مصالحت و مفاہمت پسند سابق صدر آصف علی زرداری خود ہی اپنی جلاوطنی ختم کرکے دبئی سے اپنی ذات و سیاست پر ریگ مال لگواکر وطن واپس پہنچ گئے ہیں ،پچھلے دِنوں بلاول کے ابوجی آصف علی زرداری جب کراچی ائیرپورٹ پر اُترے تو پی پی پی کے پرانے اورنئے جیالوں اور جیالیوں نے ڈھول بجا کر رقص کرکے اور دھمال ڈال کراپنے ضرورت سے کہیں زیادہ شارپ مائنڈ رہنماءکا پُرتباگ استقبال کیا ، جن کی خودساختہ جلاوطنی کے بعد طن واپسی پر پی پی پی والوں نے ائیر پورٹ سے لے کر شاہراہ فیصل اور بلاول ہاو ¿س کراچی تک پورے راستے پر استقبالیہ کیمپس قائم کررکھے تھے اور اِن کیمپوں کو دُلہن کی طرح سجایاگیاتھا اِس سے قبل جب پچھلے دِنوں بلاول زرداری نے اپنے ابو کی 23دسمبر کو وطن واپسی کا اعلان کیا تھا تو اِن کی پارٹی کے لوگوں میں خوشی کی ایک روح پیداہوگئی تھی جس کے بعد اِن کی جماعت کے جیالے اور جیالیوں نے اپنی جماعت کے طاقتورترین شریک چیئرمین کو خوش آمدید کہنے کے لئے زورشور سے تیاریاں شروع کردی گئیں تھیں۔
یوںآج پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری وطن واپس آچکے ہیں اور اپنی پارٹی کے جیالوں اور جیالیوں کے جھڑمٹ میں موجودہ ہیں ایک ایسے موقعے پر جب مُلک میں اگلے انتخابات 2018ءہونے کو ہیں آصف علی زرداری کی وطن واپسی کے بعد سیاست میں جیسی ہلچل پیداہوگی اِس کا اندازہ تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہوگامگر فی الحال ابھی اتناہے کہ پی پی پی جس نے موجودہ ن لیگ کی حکومت میں نہ توابھی تک کچھ اچھاکیا ہے ؟ اور نہ حکومت مخالف ایسا کوئی بُرا قدم اُٹھایاہے ؟؟مگر اَب یہ 27دسمبر سے حکومت مخالف تحاریک چلانے اور مُلک بھر میں احتجاجوں کا ایک نہ رکنے والاسلسلہ شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کی بلاول زرداری تیاریاں کرچکے ہیں اور اَب یہ اپنے ابوجانی کی موجودگی میں پارٹی جیالوں اور جیالیوں کے ہمراہ اِس پر عمل کرنے کے لئے کمربستہ ہیں اور اپنے حکومت اور حکومتی وزراءکی ذات سے متعلق مخالفت میں گرماگرما بیانات داغ کر سیاسی ماحول کو وارم اَپ کرنے میں لگے پڑے ہیں ایسے میں یہ سمجھ نہیں آرہاہے کہ بلاول یہ بیانات خود داغ رہے ہیں یا کوئی اِن کے منہ میں یہ بیانات ٹھونس کر اِن سے بلوارہاہے۔
بہرحال، آ ج قوم تو یہ سمجھتی ہے کہ بلاول جتنابڑاہے یہ اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق اُتنے ہی بڑے بیانات دے تو اپنا سیاسی مقام بناسکتاہے ورنہ کسی کے سیاسی جملے اور الفاظ اپنے منہ میں ٹھونس کر اپنی زبان سے اداکرکے بلاول کبھی بھی بڑاسیاستدان نہیں بن سکتاہے کیا ہی اچھاہوتا؟؟کہ بلاول اپنی عمر سے کئی گناہ زیادہ بڑے اپنے سینیئر مخالف سیاستدانوں کے لئے اُلٹی سیدھی تیزو زہریلی اور چرب زبانی سے اجتناب برتے اور خود کو بے وقت کی بن سوچے بن تولے فضول کی ذاتی اور سیاسی الزام تراشی اور تیزوزہریلی اورچرب زبانی سے لگ رکھے تو اچھا ہے ورنہ بلاول زرداری کا اپنی عمر سے زیادہ سیاسی بدتمیز پن اِس کا سیاسی کیریئرتباہ کردے گا۔
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com