زرداری کی گرفتاری، بجٹ پر بھاری؟

Bilawal Bhutto - Imran Khan

Bilawal Bhutto – Imran Khan

اسلام آباد (جیوڈیسک) آصف زرداری کے خلاف جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں 2015ء میں شروع کردہ تفتیش میں تیزی عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد آئی۔ عدالتی حکم پر جی آئی ٹی بنی اور نیب کی درخواست پر چھان بین کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دی گئی تھی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کیس کی منتقلی کی مخالفت کرتی رہی۔ لیکن آصف علی زرداری اور ان کی ہمیشرہ فریال تالپور کراچی کی بینکنگ کورٹ میں پیش ہوتے رہے۔ مقدمے کی اسلام آباد منتقلی کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں عدالت نے پانچ مرتبہ توسیع کی تھی۔ لیکن پیر دس جون کے روز بالآخر عدالت نے مزید توسیع کی درخواست مسترد کر دی اور آصف زرداری کو گرفتار کر لیا گیا۔

یہ سب کچھ ایک ایسے دن ہوا جب مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو اسلام آباد میں رواں مالی سال کا معاشی جائزہ پیش کرنا تھا۔ صحافیوں نے پوچھا کہ قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پیش ہونا ہے، اپوزیشن شور شرابہ کرے گی تو ایسے میں آپ بجٹ کیسے پیش کریں گے؟

اس پر مشیر خزانہ نے کہا کہ سیاسی صورت حال میں احتجاج تو ہوتا ہی ہے۔ وہ کئی بار صحافیوں کے سوالات پر جھجھکتے بھی رہے اور متعدد سوالات کے جوابات کے لیے انہوں نے مشیر تجارت رزاق داؤد، چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی، وزیر مملکت عمر ایوب اور حماد اظہر کو آگے کر دیا۔

پی ٹی آئی حکومت کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے رکن ڈاکٹر اشفاق حسن نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”آصف زرداری کی گرفتاری کے ملبے میں اقتصادی سروے سے متعلق وزیر اعظم کے مشیر خزانہ کی نیوز کانفرنس دب گئی، سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی نیوز کانفرنس کو نجی ٹی وی چینلز پر خلاف توقع وہ کوریج نہ مل سکی، جو ہر سال بجٹ کے موقع پر ملتی ہے اور حکومت اس اہم مرحلے سے باآسانی گزر گئی۔‘‘

لیکن سینئر بزنس صحافی حارث ضمیر کہتے ہیں، ’’اقتصادی سروے کی رپورٹ پیش کرنے کے بعد مشیر خزانہ کے پاس صحافیوں کے اکثر سوالات کے جواب نہیں تھے اور وہ مختلف بہانوں سے سوالات کو ٹالتے رہے، جس سے لگا کہ شاید فی الحال حکومت بالکل لاجواب ہے۔‘‘

اقتصادی روزنامے ‘بزنس ریکارڈر‘ سے وابستہ معاشی تجزیہ نگار عمران سلطان آئندہ بجٹ کو مکمل طور پر آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ”آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان کو انتہائی سخت شرائط پر قرض دینے کی حامی بھری ہے تاہم موجودہ حالات میں پاکستانی معیشت کے لیے ان اصلاحات پر عمل درآمد ممکن دکھائی نہیں دیتا۔‘‘