پاکستان میں خواجہ ناظم الدین کے بعد پاکستانی سیاست آہستہ آہستہ معدوم ہونے لگی اور ایوب خان کے طویل دور اقتدار نے تو عوامی سیاست کو بلکل ہی تباہ کردیا تھالیکن اس دوران زوالفقارعلی بھٹو کھڑے ہوئے اور وزرات خارجہ کے عہدے سے دستبردار ہوکر ایوب خان کی کابینہ کو خیر آباد کہہ دیااو پیپلزپارٹی کے نام سے ایک جماعت بناکر عوام کے درمیان آکھڑے ہوئے ،اور اس طرح انہوں نے پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے ایک بھرپور عوامی سیاست کا آغاز شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سندھ اور پنجاب کی عوام کے دلوں پر چھاگئے جس کے نتیجے میں 1970کے عام انتخابات میں غریب اور عام لوگوں کو ٹکٹ دیکر بھی پیپلزپارٹی نے حیرت انگیز طورپر مغربی پاکستان میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرلی جمہوری قوتوں کے دشمنوں کو پیپلزپارٹی کا تیزی سے چڑھتا ہوا سورج ایک آنکھ نہ بھایاپھر سازشوں کا زمانہ شروع ہوا مگر زوالفقارعلی بھٹو پر ایک پیسے کی کرپشن کا بھی الزام نہ تھا یہاں تک کہ وہ تختہ دار پر چڑھ گئے۔
بدنصیبی سے آج یہ ہی پیپلزپارٹی آصف زرداری جیسے بین الاقوامی شہرت یافتہ کرپشن ماسٹرکے قبضے میں ہے تاہم آج صورتحال یہ ہے کہ قا نون کا بے رحم شکنجہ آصف زرداری کے پاس تیزی سے بڑھ رہاہے اوراس کو کیا کہا جائے کہ ان کی بہن بھی ان کے ساتھ ساتھ ہیں،آصف زرداری نے بے نظیر بھٹو سے شادی کرنے کے بعد فرسٹ جنٹلمین ہونے کے ناطے بھرپور فائدے اٹھائے ،انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹوکی حکومت میں ہی بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کرنے پر جیلوں کی ہوا کھائی ، ان پر1990میں لگنے والے الزامات کا سلسلہ 1993کی حکومت تک نہ رک سکاجس کے باعث اس حکومت کو بھی اپنی حرکتوں کے باعث دوسال ہی چلنے کا موقع مل سکا1996میں ایک قتل کا الزام بھی آصف زرداری کے حصے میں آگیا جب پولیس نے مرتضٰی بھٹو یعنی ان کے سالے کو ان کے گھر کے سامنے ہی ما رڈالا تھا جس کا الزام بھی نصرت بھٹو اور ان کی بیوہ غنویٰ بھٹو نے آصف زرداری پر ہی لگادیا تھااور کہا تھا کہ آصف زرداری اور مرتضٰی بھٹو میں ان بن رہا کرتی تھی جس کے باعث ایک بار پھر یہ قانون کے شکنجے میں آچکے تھے۔
آج اس قدر سنگین الزامات میں گھرے آصف زرداری پھر سے اسی قانون کے شکنجے میں پھنسے ہوئی دکھائی دے رہے ہیں،اس ملک کے ایک بڑے بینکرز حسین لوائی بھی اس وقت قانون کے شکنجے میں ہیں ان کے خلاف لگی ایف آئی آر میں آصف زرداری اور ا ن کی بہن فریا ل تالپور کا نام بھی شامل ہے کہ انہوں نے ملکی دولت کولوٹ کر دنیا بھر کے بینکوں میں منتقل کیا، اس سے قبل اس طرح کے بے شمارکیسوں سے باعزت بری ہونے والے آصف زرداری ایک طویل عرصے کی جیل سے رہائی بھی پاکر آچکے ہیں مگر عنوانی کی داستانیں اس قدر طویل ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں ،دفاعی معاہدوں،توانائی کے منصوبوں ،ٹیکسٹائل کے معاملات ،صنعت وتجارت،تیل اور گیس کے پرمٹ ،جہازوں کی خریداری، سرکاری زمینوں کی خریدو فروخت، شوگر ملوں پر قبضے اور غیر ملکی قرضوں سے عیاشیاں کرناکیا کیا الزامات نہیں ہیں ان کے سر پر اورآج یہ ہی وجہ ہے کہ آصف زرداری اور ان کی بہن کے خلاف منی لانڈرنگ کا ایک اور مقدمہ اپنا پھن پھیلائے بیٹھاہے، سرے محل یا سوئس بینکوں میں رقوم کی منتقلی کا معاملہ شاید اس قدر اہم نہ ہو جتنا کہ انہوں نے پاکستان میں ہی چھوٹے چھوٹے معاملات میں ہی کروڑوں روپے روزانہ چھاپنے کا کاروبار شروع کیا ہوا تھا ان کا مسٹر ٹین پرسینٹ کا لقب ہی اس بنیاد پر پڑا تھا کہ وہ بغیر کچھ لیے کوئی کام ہی نہیں ہونے دیتے تھے۔
آج جوان کے ساتھ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے زریعے پیسہ باہر بھیجنے کے معاملے میں ان کی بہن کے ساتھ ان کے قریبی 35افراد کے خلاف گھیرا تنگ کرنا شروع کردیاہے یہ سب کے سب ایک ایک کرکے سارے راز اگل دینگے کہ کس کس نے اور کس کس طرح سے اس ملک کو نقصان پہنچایا ہے یقینی طور پر اس سارے کیس میں پانامہ طرز کی جے آئی ٹی بننا وقت کی ضرورت ہے کیونکہ پانامہ لیکس کی طرح اس وقت آصف زرداری کی 35ارب روپے سے زیادہ کی منی لانڈرنگ کے قصے گلی کوچوں میں عام ہورہے ہیں ،اگر باقی ملکی لٹیروں کا احتساب نہ کیا گیا تو دنیا یہ ہی کہے گی کہ احتساب کا دائرہ صرف شریف خاندان تک محدود تھا لہذا انصاف کے تقاضے اس ہی وقت پورے ہونگے جب ہر ایک کے ساتھ انصاف ہوتا ہوا دکھائی دیگا،آج آصف زرداری کے 35ارب کی جعلی اکاؤنٹس کے زریعے منتقلی کے گواہوں کو ہراساں کیئے جانے کے انکشافات بھی سامنے آرہے ہیں،جس پر چیف جسٹس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ کس کے کہنے پر لوگوں کو ہراساں کیا جارہاہے سندھ حکومت نے کچھ ایسا ویسا کیا تو چھوڑیں گے نہیں اور چوری کا پیسہ ہضم نہیں کرنے دینگے۔
آج کرپشن اور بدعنوانی کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے بانیان کا سلسلہ جو زوالفقار علی بھٹو سے شروع ہوا وہ بے نظیر کی شہادت پر ہی ختم ہوچکاہے، ایک زمانے میں جب آصف زرداری نے سرے محل خریدااور ان کے لیے برطانیہ کے سوئس بینکوں میں اربوں کھربوں کی منتقلی کے انکشافات ہوئے تھے تو اس وقت آصف زرداری کے چہرے پر ایک بے رحمانہ مسکراہٹ بھی نظروں کے سامنے گھوم جایا کرتی تھی مگر آج جب چیف جسٹس آف پاکستان نے عوام کی داد رسی کا سلسلہ جس طرح سے اٹھایا ہے اس نے پاکستان کے ایک عام آدمی کا حوصلہ بھی بلند کیاہے ۔آصف زرداری آج ایک وقت میں کئی کئی مشکلات میں گھر چکے ہیں کیونکہ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے سابق صدر پرویز مشرف پر بے نظیر قتل کے الزامات لگانے کا یہ نتیجہ نکلاہے کہ پرویز مشرف نے اپنے ویڈیو پیغام کے زریعے آصف زرداری پر جو سنگین الزامات لگائے ہیں اس نے پوری قوم کو ہی ہلا کر رکھ دیاہے ویڈیو میں پرویز مشرف نے بے نظیر قتل کیس میں آصف زرداری کو ہی قصور وار ٹھرایا ہے۔
انہوں نے کہاکہ بے نظیر کا قاتل میں نہیں بلکہ بے نظیر سمیت تمام بھٹو خاندان کا قاتل آصف زرداری ہی ہے اور بے نظیر کے قتل کا فائدہ ایک ہی شخص کو ہوا ہے اور وہ ہے آصف زرداری انہوں نے الزام لگایا کہ آصف زرداری کے کرزئی سمیت افغان حکام کے ساتھ اچھے تعلقات تھے لہذا بے نظیر قتل کی سازش میں افغان حکام اور آصف زرداری شامل ہیں ،آخر میں یہ کہونگا کہ قیام پاکستان کے بیس سال بعد ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر سے نکلنے والی پیپلزپارٹی کے جن منشوروں کا سنگ بنیا د رکھا گیا تھا موجودہ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو وہ سب باتیں آج بھول چکی ہیں ،آج پیپلزپارٹی وڈیروں اور سرمایہ داروں کا ایک گروہ بن کر رہ گیاہے جس کی سرپرستی اب ایک ایسے آدمی کے پاس ہے جس پر کرپشن کے لازاول کیسوں کا ایک بھاری بھرکم بوجھ لدھا ہواہے ،زوالفقارعلی بھٹو نے ساڑھے چار سال بطور وزیراعظم اپنے انقلابی منشور سے پیپلزپارٹی کو وہ عروج بخشا جو کسی بھی جماعت کے حصے میں نہ آیا جبکہ آصف علی زرداری نے اپنی پانچ سالہ دور اقتدار میں نہ صرف پیپلزپارٹی کے منشور کی دھجیاں اڑائی بلکہ بھٹو خاندان نے جس پیپلزپارٹی کو سڑکوں اور چوارہوں پر سجارکھا تھا اسی پارٹی کو آصف زرادری نے بلاول ہاؤس کے ڈرائنگ روم میں لاکر بند کر دیا ہے۔