لاہور (جیوڈیسک) سانحہ ماڈل ٹاون رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد آصف زرداری نے طاہر القادری سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے۔ آصف زرداری کا کہنا تھا کہ انصاف کے حصول کیلئے آپ کے ساتھ ہیں، شہدا کے لواحقین کو انصاف ملنا چاہیے، آصف زرداری آج لاہور میں طاہرالقادری سے ملاقات بھی کریں گے۔ ذرائع کے مطابق خورشید شاہ، قمرزمان کائرہ اور ڈاکٹر قیوم سومروبھی ساتھ ہونگے۔
ترجمان عوامی تحریک کے مطابق آصف زرداری اور طاہر القادری میں گزشتہ شب رابطہ ہوا تھا جبکہ مسلم لیگ ق کی قیادت پہلے ہی ساتھ دینے کا اعلان کر چکی ہے۔ ترجمان عوامی تحرک کا کہنا تھا کہ عمران خان نے بھی احتجاج میں ہر طرح کا ساتھ دینے کا یقین دلا دیا۔ طاہر القادری آج کور کمیٹی اور وکلا کی ٹیم کے ساتھ مشاورت میں لائحہ عمل طے کریں گے۔
خیال رہے لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر پنجاب حکومت کی جانب سے شائع کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسان جھوٹ بول سکتا ہے، حالات نہیں، حالات بتاتے ہیں کہ پولیس والوں نے اس قتل عام میں بھرپور حصہ ڈالا۔ پولیس نے وہی کیا جس کے لیے اسے بھیجا گیا تھا۔ رانا ثناء اللہ ڈاکٹر طاہر القادری کو اپنے سیاسی مقاصد پورا کرنے کے کوئی موقع نہیں دینا چاہتے تھے۔ اس رپورٹ کو پڑھنے والے خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ذمہ داری کس پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق تمام ذمہ دار افراد ایک دوسرے کو بچانے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ یہ بات شیشے کی طرح صاف شفاف ہے کہ وزیر اعلیٰ کی طرف سے کارروائی روکنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ عدالت کے حکم پر عمل درآمد کیا جاتا تو وزیرِ قانون کو نگرانی میں طے پانے والے آپریشن میں خون خرابا روکا جا سکتا تھا۔ جبکہ تمام بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے کسی بھی وقت کارروائی روکنے کا حکم نہیں دیا۔
رپورٹ کے مندر جات کے مطابق 16 جون 2014ء کی میٹنگ میں رانا ثناء اللہ نے سختی سے کہا کہ طاہر القادری کو اپنی لانگ مارچ کے مقاصد پورے نہیں کرنے دئیے جائیں گے۔ 17جون 2014 کو میں بھی وزیر اعلیٰ نے ڈس انگیجمنٹ کا ذکر نہیں کیا۔ وزیر اعلیٰ نے ڈس انگیجمنٹ کا لفظ استعمال کیا اور حیرت انگیز طور پر سیکرٹری داخلہ اور رانا ثناء اللہ نے استعمال نہیں کیا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واقعے سے کچھ ہی دیر پہلے آئی جی پنجاب اور ڈی سی او لاہور کی تبدیلی شکوک شبہات کو جنم دیتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ پولیس والوں کو حکم تھا کہ اپنے مقاصد حاصل کریں، چاہے غیر مسلح شہریوں کو قتل ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ سچ کا سراغ لگانے کے لیے پنجاب حکومت نے ٹریبونل کو مناسب اختیارات نہیں دیے۔ حالات کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ سرکار نہیں چاہتی یہ ٹریبونل واضح نتائج تک پہنچے۔
شہباز شریف نے بیان حلفی میں کہا کہ انہیں منہاج القران کے واقعے کا علم ٹی وی کے ذریعے ہوا۔ وزیر اعلیٰ نے اپنے سیکرٹری سے تفصیل پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ کہ رانا ثناء اللہ کے حکم پر ادارے کے باہر سے تجاوزات کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے فوری طور پر پولیس کو کارروائی روکنے کا حکم دیا۔ جبکہ سی سی پی او لاہور، ڈی آئی جی آپریشن اور ایس پی ماڈل ٹاؤن کو عہدوں سے ہٹا دیا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان عوامی تحریک نے غیر ضروری طور پر ٹریبونل کا بائیکاٹ کیا اور اپنی مرضی کی ایف آئی آر درج ہونے تک کسی بھی قسم کی تحقیقات کا حصہ بننے سے انکار کیا۔