اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) عاصم سلیم باجوہ کی وضاحت سے غیر مطمئن سیاسی حلقے شفاف تحقیات کے لیے ان کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں جب کہ کئی دوسرے پاکستانی حلقے ان کی وضاحت کو اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے ایسے مطالبوں کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔
سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین اور معاون خصوصی وزیر اعظم برائے اطلاعات جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ نے گزشتہ روز پاکستانی نجی چینل کے ایک پروگرام میں صحافی احمد نوارنی کی طرف سے خود پر لگائے گئے الزامات کے تفصیلی جوابات دیے تھے۔
قبل ازیں انہوں نے ایک پریس کانفرنس بھی کی تھی جب کہ ٹی وی ٹاک شوز میں بھی ان اعتراضات کو مسترد کیا تھا۔ احمد نورانی کی رپورٹ کے حوالے سے اپنا موقف انہوں نے ٹویٹ کے ذریعے بھی شیئر کیا۔
تاہم اس وضاحت کے باوجود بھی احمدنورانی کے الزامات اور باجوہ کی وضاحت پر بحث اب بھی جاری ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم کے دفتر کے ٹوئیٹر ہینڈل سے کی جانے والی ٹوئیٹ کے مطابق جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ نے وزیر اعظم کے خصوصی معاون وزیر برائے اطلاعات کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا تاہم پاکستانی وزیر اعظم نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا۔
احمد نورانی کے الزامات سے ملک کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ ن لیگ کی رہنما مریم نواز نے کچھ دنوں پہلے جنرل باجوہ کو الزامات کا سامنا کرنے کا کہا تھا جب کہ آج پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی ملک کے احتسابی نظام پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا، “اگر ملک میں ایک ہی نظام احتساب ہے، تو جو سلوک حزب اختلاف کے ساتھ ہوتا ہے، وہی معاون خصوصی ومشیروں کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔”
سوشل میڈیا پر بھی ان الزامات کے حوالے سے بحث کا ایک طوفان اٹھا ہوا ہے۔ جنرل باجوہ کے وضاحت کے بعد اب سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر اور فیس بک پر صارفین نے مذید سوالات اٹھا دیئے ہیں۔
سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین کے جوابات تسلی بخش نہیں ہیں اور یہ کہ اس معاملے کی بھرپور تحقیقات ہونی چاہیے، جس کے لیے عاصم سلیم باجوہ کو استعفی دے دینا چاہیے۔
جمعیت علما اسلام فضل الرحمن گروپ کے سابق نائب مرکزی امیر اور موجودہ ترجمان حافظ حیسن احمد کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ کے جوابات تسلی بخش نہیں تھے۔ “اپنی وضاحت اور جوابات سے خود جنرل عاصم سلیم باجوہ بھی مطمئن نہیں ہیں۔ اگر وہ مطمئن ہوتے تو معاون خصوصی کے عہدے سے استعفی نہیں دیتے۔ انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ سی پیک اتھارٹی کی چیئرمین شپ سے بھی استعفی دیں کیونکہ یہ عمران خان کا ہی بیانیہ ہے کہ جس پر الزامات لگیں، وہ استعفی دے۔ تو جنرل صاحب استعفی دے کر انکوائری کا سامنا کریں اور اگر وہ صاف پائے جائیں تو واپس آجائیں۔‘‘
ملک کے کئی حلقے ان الزامات کے پس منظر میں پاکستان کے احتسابی نظام پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔
پی پی پی کے رہنما اورسابق ایم این اے چوہدری منظور نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہمارے چیئرمین نے اس مسئلے پر اپنی واضح رائے دی ہے اور وہ ہی پارٹی کا موقف ہے کہ ملک میں احتساب منتخب نہیں ہو سکتا اور نہ ہی دو طرح کا ہو سکتا ہے کہ سیاست دانوں کے لیے مختلف ہو اور دوسرے کے لیے مختلف۔‘‘
کچھ سیاسی حلقے احتساب کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں اور جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ پر لگائےجانے والے الزامات کی جامع تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر کا کہنا ہے کہ عاصم سلیم باجوہ کو فوری طور پر سی پیک اتھارٹی کی چیئرمین شپ سے ہٹا دیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا، ”اس کے علاوہ ایک جوڈیشل کمیشن فوری طور پر بننا چاہیے جو ان کے کاروبار، سرمایہ کاری اور اثاثوں کی بھرپور تفتیش کرے۔ ان کی وضاحت نے مزید سوالات کو جنم دیا ہے، جن کی تحقیق ہونی چاہیے۔‘‘
بشریٰ گوہر کا مزید کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف، کور کمانڈز، دوسرے حاضر سروس عسکری افسران اور سویلین بیوروکریٹس کو بھی اپنے اثاثے ظاہر کرنے چاہییں اور ان کی منی ٹریل بھی عدالتوں میں پیش کرنی چاہیے۔
”اس کے علاوہ احتسابی قوانین میں ترمیم کر کے اس کے دائرہ اختیار کو ملٹری اور سویلین افسران تک بڑھانا چاہیے۔ اس واقعے سے حکومت کے احتساب کے دعووں کا پول کھل گیا ہے، جس کی ناک تلے کرپشن کے کئی واقعات ہوئے۔‘‘
عاصم سلیم باجوہ پر تنقید صرف حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے ہی نہیں ہورہی بلکہ پی ٹی آئی کے کچھ رہنماوں کو بھی اس معاملے پر تحفظات ہیں۔
پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسحاق خاکوانی بھی انہیں عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کرنے والوں کی صف میں ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”جنرل باجوہ کی وضاحت بہت مبہم ہے۔ سینتس ہزار ڈالرز سے اتنا منافع کیسے کمایا جا سکتا ہے۔ منی ٹریل اور دوسرے معاملات کے حوالے سے تحقیقات ہونی چاہیے اور جب تک تحقیقات ان کو کلیئر نہ کرے، انہیں پی ٹی آئی حکومت میں کوئی عہدہ نہیں رکھنا چاہیے۔‘‘
تاہم ملک کے دوسرے حلقے عاصم سلیم باجوہ کے جوابات کو اطمینان بخش قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ نے پر اعتماد انداز میں میڈیا کے سوالات کا سامنا کیا۔ ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنرل باجوہ کے استعفی کا مطالبہ بلا جواز ہے۔
معروف تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ کے خلاف صرف الزامات ہیں، ”اور یہ الزامات بھی سوشل میڈیا پر لگائے گئے۔ اس کے باجود انہوں نے ان الزامات کا بھرپور جواب دیا۔ اپنے اور اپنے گھر والوں کے حوالے سے وضاحت کی۔ اب ان سے ان کے بھائیوں کے حوالے سے تو سوالات نہیں کیے جا سکتے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس منی ٹریل اور دوسری چیزیں ہیں۔ یقینا وہ یہ سب کچھ کسی اخبار کو تو نہیں دے سکتے۔ اگر کوئی قانونی فورم ان سے پوچھے گا تو وہ جواب دیں گے۔ تو میرے خیال میں ان کے استعفے کا مطالبہ بالکل بلاجواز ہے۔‘‘
سیاسی مبصر جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ اس معاملے کے بہت سے ٹیکنکل پہلو ہیں، جس پر وہ تبصرہ نہیں کر سکتے، ”تاہم یہ بات واضح ہے کہ احمد نورانی را، پی ٹی ایم، ن لیگ اور حسین حقانی کے ساتھ مل کر فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ نورانی نے کبھی نواز شریف یا سیاست دانوں کے کرپشن کو بے نقاب کر کے ریاست پاکستان کی مدد تو نہیں کی۔ قاضی فائز عیسیٰ کی منی ٹریل نہیں مانگی۔ ماضی میں ان کے الزامات جھوٹے بھی ثابت ہوئے ہیں اور انہوں نے سپریم کورٹ میں معافی مانگی ہے۔ اب وہ سی پیک کو نقصان پہنچانے کے لیے ایسے الزامات لگا رہے ہیں۔‘‘
امجد شعیب ان کا کہنا تھا، ”عاصم سلیم باجوہ کو چیئرمین سی پیک اتھارٹی کے عہدے سے بالکل استعفی نہیں دینا چاہیے۔ وزیر یا معاون بن کر انسان تحقیقات پر اثر انداز ہو سکتا ہے لیکن سی پیک اتھارٹی میں تو وہ ملازم ہیں، جہاں ان پر نظر رکھی جا سکتی ہے اور وہ تفتیش پر اثر انداز بھی نہیں ہو سکتے۔‘‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار جنرل غلام مصطفے بھی عاصم سلیم باجوہ کے استعفے کے مطالبے کو بلاجواز قرار دیتے ہیں۔
ان کے خیال میں جنرل عاصم کے خلاف بدنیتی پر مبنی ایک پروپینگنڈہ مہم چلائی جارہی ہے۔ ”تین وجوہات کی بنا پر یہ مہم چلائی جا رہی ہے۔ پہلی یہ ہے کہ وہ آئی ایس پی آر کے ایک ایسے وقت میں سربراہ رہے جب پاکستان کے خلاف بہت پروپیگنڈہ کیا جارہا تھا اور انہوں نے آئی ایس پی آر کو بہت موثر انداز میں چلایا۔ دوسرا یہ کہ ان کا تعلق آرمی سے ہے۔ تو ان کو بدنام کر کے آرمی کی ساکھ کو بھی خراب کیا جارہا ہے اور تیسرا یہ کہ وہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین ہیں۔ آج ان پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور انہیں بدنام کیا جارہا ہے لیکن کل سی پیک پر بھی سوالات اٹھائے جائیں گے اور اس منصوبے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔ تاہم عاصم سلیم نے ان الزامات کا سامنا کیا اور اس کا موثر جواب دیا۔‘‘