تحریر: امتیاز علی شاکر:لاہور پاکستان ہم سب کا ہے اس لئے حق کی آواز بلند کرنااور کرتے رہنا ہمارا، دینی، انسانی، قومی اور اخلاقی، فرض ہے، وطن عزیز میں کرپشن جرم جبکہ کرپٹ لوگ باعزت، معتبر اور بااختیار ہیں، کرپشن کیخلاف جہاد کی باتیں کرنے والے بھی کرپٹ افراد کے ساتھ ایک سلفی کو ترستے ہیں، سول، ملٹری، سیشن، ہائی، سپریم، شریعت، خصوصی، دہشتگردی، احتساب، اینٹی کرپشن، نادرہ، گارڈین، فیملی اور نجانے کون کون سے کورٹس ملک میں موجود ہیں، نہیں ہے توئی کوئی ایسی عدالت نہیں ہے جس میں حق اورسچ کی بنیاد پر انصاف دستیاب ہو۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 19کے مطابق اسلام کی عظمت ، پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سا لمیت ، سلامتی یا دفاع ،دنیاکے تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات ، امن عامہ ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیشِ نظر یا توہین عدالت ، کسی جرم کے ارتکاب یا اس کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں کے تابع ، ہر شہری کو تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق حاصل ہے اور پریس آزاد ہے،پوچھنایہ تھاکہ صدرمملکت علماء کودین میں سودکی گنجائش پیداکرنے کاکہے یاپھروزیراعظم ایشور،بھگوان یاکسی اور بت کواللہ تعالیٰ کاشریک ٹھہراے تواسلام کی عظمت کے خلاف تونہیں؟بیشمار عدالتوں کی موجودگی کے باوجودکسی کوبھی انصاف نہ ملناتوہین عدالت تونہیں ؟دوقومی نظرے کی مخالفت ملکی سالمیت کیخلاف تونہیں؟کسی سیاسی جماعت کے دہشتگردوں کے ساتھ قریبی روابط ملکی دفاع یاامن عامہ کیلئے نقصان دے تونہیں؟حکمران ملکی دولت لوٹ کربیرون ملک جائیدادبنائیں اورملک قرض کی دلدل دھنستاچلاجائے یہ حقائق ہیں کسی دیوانے کاخواب تونہیں؟وفاقی،صوبائی اورشہری حکومتوں کی موجودگی میں کراچی شہرسے کچرااُٹھانے کیلئے بحریہ ٹائون انتظامیہ کاآگے آناحکمرانوں کیلئے شرمندگی کاباعث تونہیں؟سرکاری مذہب اسلام اورملک سیکولر،مسجدوں کے سپیکربند جبکہ ڈی جے ،ڈانس،گانے بجانے،شراب و کباب کی محفلوں میں سپیکرچالورکھناسرکاری مذہب یااسلامی تہذیب کے مخالف تونہیں؟ملک کولبرل بناناہے توپھرمسجدوں کے سپیکرکیوں بندکیے؟صدقہ ،خیرات پرپلنے والوں سے اسی قسم کی اُمید کی جاسکتی ہے،چین،امریکہ،برطانیہ سمیت دیگرملکوں سے خیرات حاصل کرکے خوش ہونے والے حکمران ملک کوتیزی کے ساتھ سودی قرضوں کے ذریعے مفلوج کر رہے ہیں۔
کیا یہ بھی اسلام کی عظمت یا ملکی سلامتی کیخلاف نہیں؟کرپشن یا بد عنوانی صرف رشوت اور غبن کا نام نہیں، کیاحکمرانوں کاسرکاری اختیارات کواستعمال کرکے اپنوں کونوازنا،قومی املاک کواونے پونے داموں اپنی آف شورکمپنیوں کے ذریعے خریدنا،اپنے کاروبارچلانے کیلئے ملکی اداروں کوتباہ کرنا،نااہل لوگوں کوذاتی پسند یاوفاداری کی بنیادپرملکی حساس عہدوں پرفائزکرنا، قوم کے ساتھ کئے عہد توڑنا،قومی مفادات کوذاتی فائدے کیلئے قربان کرنا،بنیادی نظریات سے روح گرادنی ،ذاتی یا دنیاوی مطلب نکالنے کے لئے مذہب،ریاست، مقدس مقامات یاہستیوں کے نام کو استعمال کرنا ،کیایہ سب کچھ اسلام کی عظمت،ملکی سلامتی ،دفاع وطن یاتہذیت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے؟ 2014 میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے انکشاف کیا تھا کہ امیر پاکستانیوں کے200ارب ڈالرسوئس بینکوں میں جمع ہیں،یہ رقم اور یہ انکشاف عوام کے دماغ چکرا دینے کے لئے کافی تھا،وطن عزیز 60 ارب ڈالر سے زائدکا مقروض ہے کرپٹ پاکستانی اپنا سرمایہ وطن واپس لے آئیں تو یہ قرض چند برس میں اتر سکتا ہے،کوئی بذریعہ بدعنوانی لوٹی ہوئی ملکی دولت واپس لائے کیوں ؟ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ملک کے مقتدر اداروں میںوہی مگرمچھ بیٹھے ہیں جن کا سرمایہ بیرون ملک پڑا ہے،جن کو وطن سے بڑھ کر اپنی ذات اور اپنا سرمایہ عزیز ہے،اسحاق ڈارامیرپاکستانیوں کے 200ارب ڈالرواپس لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،لانہیں سکتے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ تیروالے کرپشن کے بے تاج بادشاہ ہیں توشیروالے بھی ماہرشکاری ہیں،تیرسے بچ نکلے والے شکارشیرکاآسان ہدف ہیںتودوسری جانب شیرکے ہاتھوں جان بچاکربھاگے زخمی اورتھکے ہوئے شکارکاتیرسے بچ پاناممکن نہیں،بدقسمتی سے مذہب کے نام پرسیاست کرنے والوں نے ہردورمیں حکمرانوں کاساتھ دیااور کرپٹ مافیاز کو اپنا کندھا پیش کرتے چلے آئے ہیں،ابھی قوم میاں برادارن اور محترم اسحاق ڈار کے خوبصورت بیانات کے طلسم کدے سے نکل نہیں سکی تھی کہ اُس پر جناب محترم صدرمملکت ممنون حسین نے صدیوں پرمحیط خاموشی توڑی توایسی گفتگوکی کہ ہم کہنے پر مجبورہیں کہ وہ خاموش ہی رہیں توبہترہے،کبھی وہ کہتے ہیں کہ علماء دین میں سود کیلئے گنجائش پیداکریں توکبھی نوجوانوں کوکرپشن کے خاتمے کیلئے تجاویزپیش کرتے ہیں،انہیں شاید اس بات کی خبر ہی نہیں کہ وہ ایٹمی طاقت رکھنے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منتخب صدرہیں، چندروز قبل لاہور میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے 61 ویں کانووکیشن سے خطاب کے دوران صدر مملکت نے نوجوانوں کو تلقین کی کہ جدید علوم و فنون میں مہارت حاصل کرکے مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کرکے ملک و قوم کی خدمت انجام دیں،ملکی مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے بجا طورپر کرپشن کو ملکی ترقی میں بڑی رکاوٹ قرار دیا اور نوجوانوں کو تلقین کی کہ اس کے خاتمے کیلئے اپنی ذمہ داریاں اور کردار ادا کریں،جناب صدر مملکت نوجوانوں کودرس تودے دیا آپ سے پوچھنایہ تھاکہ ملک میں کرپشن کے خاتمے کیلئے مختلف ادارے جیساکہ نیب موجود ہیں’ کیایہ ادارے طالب علموں کے زیرنگرانی کام کرتے ہیںیاحکمرانوں کے؟بدعنوانی سمیت ہرقسم کے جرائم و لاقانونیت کاخاتمہ کرنے کیلئے اولین اور موثر کردار ان حکومتی اداروں نے ہی ادا کرنا ہے؟یاپھر صدرمملکت کاحکومت کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں؟کچھ دانشوروں کاخیال ہے کہ شاید آج کرپشن کے خلاف لوگ سوچنے اور غور و فکر کرنے لگے ہیں۔
معاشرے کے اندر وہ روح بیدار ہو چکی ہے جو چاہتی ہے کہ برائیاں ختم ہوںاور بھلائیاں پروان چڑھیں، ناانصافی کا خاتمہ ہو اور عدل وانصاف قائم ہو،ظالم ،جابر حکمرانوں نے جو عام انسانوں کو غلامی کے طوق پہنا رکھے ہیں وہ گلوں سے اتریں اور انسان آزادہو جائیں،یعنی وہ اپنے بنیادی حقوق حاصل کر سکیں،حکومتیں ان کے حقوق ادا کریں اور ادا کرنے کا نظم قائم کریں ،یہ نظم ایسا ہو جہاں شفافیت ہو، ایمانداری ہو،احساس ذمہ داری ہواوران لوگوں پر گرفت ہو جو اس کام میں رکاوٹ بنتے ہیں، یہ سب کام زبانی نہیں بلکہ عملی ہوں،صدافسوس کہ ہم ایمانداری کی صرف باتیں کرتے ہیں عمل نہیں ،عدالت سے باہرسب سچ جبکہ اندرسب کاسب جھوٹ چلتاہے،ملک میں جمہوریت رائج ہویاآمریت ،عدالتیں فوجی ہوں یاسول عوام کوان باتوں سے کچھ لینادینانہیں ،ہمیں تووہ نظام چاہئے جس میں حکمران ایماندارہوں،عدالتیں انصاف کریں ،بدقسمتی سے گزشتہ 70سالوں میں وطن عزیزمیں ایسی کوئی آوازہی بلند نہیں ہوئی جواسلام کی عظمت کے درست معنی عوام تک پہنچاتی ،کرپٹ حکمران عام عوام کے کسی سوال کاجواب دے نہ دے اللہ والے ہمیشہ انسانیت کی درست رہنمائی فرماتے ہیں،درویش وقت ،عظیم روحانی پیشوا،سیدعرفان احمد شاہ المعروف نانگامست بابامعراج دین کی خدمت میں سوال کرنے کی جسارت کی توآپ نے فرمایا،الحمدللہ آج تحریک لبیک یارسول اللہ ۖ کی صورت ملک میں ایک ایسی جماعت وجودمیں آچکی ہے جوشخصیات نہیں درست نظام کی بات کرتی ہے،بیشک جب حاکم خوف خُدارکھنے والے ہونگے توعدالتیں انصاف کریں گی،لاا لہ کی بنیادپرقائم ہونے والے پاکستان میں اسلامی قوانین رائج ہونگے توسودسے نجات ملے گی۔
دہشتگردوں کے سہولت کارحکومتی ایوانوں سے نکلیں گے تو دہشتگردی کاخاتمہ ممکن ہوگا،توہین عدالت تودورکی بات ہے کوئی توہین سائل نہیں کرے گا،جب تک ملک میں اسلام نافذ نہیں ہوتالوگ کرپشن کوبُرااورکرپٹ افرادکومعتبرسمجھتے رہیں گے،جب تک کرپٹ لوگوں کوسزائیں نہیں دی جائیں گی تب تک کرپشن میں اضافہ ہوتارہے گا،سول یافوجی عدالتوں کے جھگڑے میں پڑے بغیرانصاف فراہم کرنے والی عدالتوں کے قیام تک عدل وانصاف ممکن نہیں ،آخرمیں پوچھنایہ تھاکہ اپوزیشن کی طرح مولاجٹ والی جذباتی تقاریرکرنے والے حکمرانوں سے سوال کرنااُن کی شان میں گستاخی تونہیں ؟ہے توپھرہوتی رہے پاکستان ہم سب کاہے،اپنے پاکستان کی ترقی،خوشحالی،سلامتی کیلئے جو سمجھ آئے گاہم کہتے اور کرتے رہیں گے۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر: امتیاز علی شاکر:لاہور imtiazali470@gmail.com 03134237099