تحریر : میر افسر امان قرآن شریف کے مطابق ہر نفس نے موت کا مزا چکھنا ہے۔ عاصمہ جہانگیر صاحبہ جو ملک کی مایہ ناز وکیل اور سپریم کورٹ بار کی پہلی اور آخری صدر تھیں دل کا دروہ پڑھنے سے اچانک مقامی ہسپتال میں انتقال کر گئیں۔ وہ لاہور میں ١٩٥٢ء میں پیدا ہوئی۔١٩٧٨ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔پھر وکالت شروع کی۔وہ سپریم کورٹ میں ٦٢ ون ایف کی تشریع کے مقدمے میں بھی پیش ہوئیں۔ وہ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی بانی کو چیئر پرسن اور کو بانی بھی تھیں۔جنیوا میں وائس چیئرپرسن فار دی چلڈرن انٹرنیشنل رہیں۔٢٠١٠ء حکومت پاکستان کی طرف سے ان کوہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ انہوں نے فانی زندگی کے ٦٦ سال پورے کیے۔عاصمہ جہانگیر نے کشمیر میں بھارتی مظالم کے لیے بھی آواز اُٹھائی۔ حکومت پاکستان صدر، وزیر اعظم،چیف جسٹس، وزیر اعظم،سابق وزیر اعظم نواز شریف، پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف ،گورنر پنجاب،مریم اورنگ زیب،عمران خان، آصف علی زرداری،بلاول زرداری،مریم نواز ،اسفند یار ولی۔جسٹس(ر) ناصرہ جاوید، ایم کیو ایم پاکستان کی نسرین جلیل،ممتاز وکیل اعتزاز احسن، گورنر خیبرپختونخواہ اقبال ظفر جگھڑا اور ملک کی سیاسی اورسماجی شخصیات نے عاصمہ جہاگیر کی موت پر گہرے غم و دُکھ کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب،جسٹس آصف سعید کھوسہ،جیف جسٹس لاہور ہائی کور ٹ جسٹس محمدیاور اور دیگر جج حضرات ان کے گھر تشریف لے گئے۔چیئر مین پی سی بی نجم سیٹھی،احسن بھون،اعظم نٰذیر تارڑ، وفاقی وزیر دانیال عزیز،چیئرمین بحریہ ٹاون ملک ریاض بھی مرحومہ کے گھر جا کر اہل خانہ سے تعزیت کی۔میڈیا کے مطابق، انتقال کے وقت معروف وکیل اعظم تاڑ سے سے فون پر بات کر رہیں تھیں کہ ایک دم زمین پر گہر گئیں۔جس پر اہل خانہ نے انہیں فوری طور پر مقامی ہسپتال میں منتقل کیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکیں۔ وکیل اعظم نذیر ارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے وقت کہا کہ فو ن پرگہر نے کی آواز آئی تومیں سمجھا کی گھر میں کوئی بچہ زمین پرگہرا ہے۔اس کے بعد فون کٹ جانے پر کئی بار فون کیا مگر فون نہیں سنا گیا۔بعد میں جب فون سنا گیا تو پتاچلا کہ انہیں دل کی تکلیف ہوئی ہے۔ ان کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں فوراً ہسپتال پہنچا تو معلوم ہوا کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ مرحومہ پاکستان میں انسانی حقوق کی علمبردار بھی تھیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے پاکستان میں کام کرتیں تھی۔ ان کے موت سے ،ایک نڈرخاتون، جو آمریت کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر رہیں، کی کمی محسوس کی جائے گی۔عدالتوں میں مشکل سے مشکل سیاسی مقدموںمیں کھل کر بولتیں تھیں۔ مرنے سے پہلے آخری بار سپریم کورٹ میں ایک معتل اے ایس پی کی ملازمت پر بحالی میں پیش بھی ہوئیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ان کی موت پر اپنے پیغام میں کہا کہ مترمہ کے انتقال سے پیدا ہونے والا خلا مشکل سے پُر ہو گا۔عاصمہ اصولوں اور نظریات کی بنیاد پر اُٹھنے والی تونا آواز ہمشیہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ان کی جمہوریت، انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق اور قانون و انصاف کے لیے خدمات یاد رکھی جائیں گی۔چیف الیکشن کمشنر نے ان کی وفات پر کہا کہ قوم ایک نڈر اور بے باک خاتون سے محروم ہو گئی۔انہوں نے ان کی موت کو ایک قومی سانحہ قرار دیا۔پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن نے کہا کہ ان کے انتقال سے انسانی حقوق اور قانون کے شعبے کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ وہ غریب طبقے کی آواز تھیں۔ انہوں نے عدلیہ بحالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، آمریت کے خلاف جدو جہد اور قانون و انصاف کی علمبرداری میں نام کمانے کے ساتھ ساتھ مذہب کے معاملے میں ان کی زندگی میں تنقید کی جاتی رہی ہے۔اب بھی سوشل میڈیا پر تکرار چل رہی ہے کہ مرحومہ اسلام کے بنیادی عقیدہ جنت کو مولویوں کی اختراع کہتی تھیں۔ بھارت جا کر پاکستان کے اسلامی اور دوقومی نظریہ کے خلاف باتیں کرتی تھیں۔ سوشل میڈیا پر جاری ایک پوسٹ میں وہ گاندھی کے فوٹو کے سامنے ہندوئوں کی رسم کے مطابق ہاتھ جوڑ کر سلام پیش کر رہیں ہے۔ ماتھے پرہندوئوں عورتوں کے طرز پر تلک لگایا ہوا ہے۔ صاحبو! پاکستان اسلام کے بنیادی کلمے لا الہ الا اللہ کے نام پر بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے حاصل کیا تھا۔ پاکستان اسلام کے نظریہ پر ہی قائم و دائم رہ سکتا ہے۔ سروے کے مطابق پاکستان کے ٩٠ فی صد عوام پاکستان کو اسلامی پاکستان دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
اسلام سے محبت رکھنے والے عناصر کی کوششوں سے پاکستان کا اسلامی آئین بنا۔جسمیں تحریر ہے کہ ملک میں اسلام کے خلاف کوئی بھی قانون نہیں بن سکتا۔ اگر کوئی شک اسلام کے خلاف ہے تو اس کو پاکستان کے آئین کے مطابق بنی اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر پاکستان کی قومی اسمبلی قانون سازی کر کے اس شک کو اسلام کے مطابق تبدیل کر سکتی ہے۔بڑے افسوس سے کہنا پڑھتا ہے کہ مرحومہ پاکستان کے اسلامی آئین کی پاسداری میں کوئی اچھی شہرت نہیں رکھتی تھیں۔ اقتدار کے رسیا حلقے پاکستان کو بیرونی ملکوں کی شہ پر کبھی سیکولرزم ،سوشلزم اور مذہب بیزاری کی طرف لے جاتے رہے ہیں۔
غریب عوام پر اپنے مکر کے ذریعے اقتدار حاصل کر کے ان کی تمنائوں کے خلاف پاکستانی معاشرے کو تبدیل کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے نظامِ تعلیم کے نصاب میں سے اسلامی اقدار کے مضمون نکال اسلام سے متصادم مضمون داخل کر رہے ہیں۔ توہین رسالت کے قانون کو پاکستان کے آئین سے نکالنے کے لیے بیرونی دنیا کی این جی اوز کے ساتھ مل کر دبائو ڈالتے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے مطابق مرحومہ اس میں پیش پیش رہی ہے۔ پاکستان کے اسلامی معاشرے میںایسے حضرات کی کوئی عزت و احترام نہیں۔ پھر بھی مسلمان ہوتے ہوئے اللہ سے دعا ہے کہ اللہ مرحومہ کے گناہ معاف فرمائے۔اور زندہ رہنے والے ایسے عناصر کو ہدیت سے نوازے آمین۔