لاہور (جیوڈیسک) جمہوریت کی آواز، انسانی حقوق کی علمبردار اور زندگی بھر ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے والی عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ قذافی اسٹیڈیم کے باہر ادا کر دی گئی۔ نمازہ جنازہ میں سیاسی، سماجی اور وکلاء رہنماؤں سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ عاصمہ جہانگیر کی نمازہ جنازہ حیدر فاروق مودودی نے پڑھائی، عاصمہ جہانگیر کی تدفیں بیدیاں روڈ فارم ہاؤس میں ہو گی۔
معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر اچانک دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال کر گئیں۔ ان کی عمر 66 برس تھی۔ عاصمہ جہانگیر 27 جنوری 1952 کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں ںے قانون کے شعبے میں قدم رکھا اور اپنی مسلسل جدوجہد سے سپریم کورٹ بار کی صدارت کے منصب پر فائز ہوئیں۔
انہوں نے 1978 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔ وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے بانیوں میں شمار کی جاتی تھیں۔ عاصمہ جہانگیر کو 1995 میں مارٹن انالز اور 2010 ء میں ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی انہیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔
1980 کی دہائی میں عاصمہ جہانگیر نے بطور وکیل خدمات انجام دینا شروع کیں اور بعد ازاں سپریم کورٹ سے وابستہ ہوگئیں۔ یہ وہی دور تھا جب وہ آمر ضیا ء الحق کی آمریت کے خلاف شروع ہونے والی جدوجہد میں صف اول میں شامل رہیں۔ انہیں اسی تحریک کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں بھی اٹھانا پڑیں۔
21 برس کی عمر میں عاصمہ جہانگیر کی زندگی میں اہم موڑ آیا جب ان کے والد کو جنرل یحییٰ خان نے جیل میں ڈال دیا۔ عاصمہ جہانگیر نے اپنے والد کا کیس لڑنے کیلئے لاہور کے تمام وکلا سے درخواست کی لیکن کسی نے بھی ان کے والد کا کیس لڑنے سے انکار کر دیا۔ اس صورتحال میں عاصمہ جہانگیر نے اپنے والد کا کیس خود لڑنے کا فیصلہ کیا اور نہ صرف اپنے والد کا کیس جیتا بلکہ یحییٰ خان کی آمریت کو بھی عدالت کے ذریعے غیر آئینی قرار دلوایا۔