تحریر : شاہ بانو میر بڑی سوچ کے حامل افراد بڑا نام پیدا کر کے دنیا سے جاتے ہیں، وہ جا کر بھی اپنے عمل سے اپنے کام سے ہمیشہ ہمارے دلوں میں اور اپنے اداروں میں زندہ رہتے ہیں، ایسی ہی ایک خاتون ہیں جن کا قد نام بہت بڑا ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ، دلوں میں فیصلوں میں اور انصاف میں، مظلوم کی صدا میں، عاصمہ جہانگیر مظلوم عورت کا اعتماد اور اس کا یقین یہی نام ہے، یہ آواز ہمیشہ ہمیشہ کیلیۓ خاک کی چادر اوڑھ کر سو گئی ہے ، مگر اپنے پیچھے ایک تاریخ ایک دور ایک زندگی چھوڑ گئی ہے ، جو کبھی مر نہیں سکے گی ، ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہے گی ، یہی ہے خالص سچا کھرا کام جو کبھی موت سے ہمکنار نہیں ہوتا ، پورا ملک سوگوار ہے اور ایوان عدل کے بڑے بڑے سرکردہ نام ملول اور اس خلا کو پُر ہوتا نہیں دیکھ رہے جو ان کی وفات سے پیدا ہو گیا ہے۔
آج صبح عاصمہ کی یادشدت سے آئی جب خبر سنی کہ حافظ آباد میں سفاک انسانیت کے دشمنوں نے غریب لاچار لوگوں کی بیٹیوں کو جہیز دینے کالالچ دیتے رہے ، میڈیکل چیک اپ کی آڑ میں ان بچیوں کی ریڑھ کی ھڈی کا گودا نکال کر مہنگے داموں فروخت کر کے انہیں کوڑیوں کے مول کچھ چیزیں جہیز کے نام پر دیتے رہے ، بچیوں میں سے کچھ “”بون میرو”” کے نکالنے کے اس عمل کے بعد معذور ہو گئیں اور کچھ مختلف عارضوں میں مبتلا ہو گئیں، پاکستانی معاشرہ فسطائیت کا شکار ہوتا جا رہا ہے ، ایسے ایسے گھٹیا اور عجیب و غریب جرائم سامنے آ رہے ہیں جو دراصل بھوک غربت کی پیدا وار ہیں۔
آج عاصمہ زندہ ہوتی تو اب تک ان بچیوں کی معذور زندگی کیلئے صدائے احتجاج بلند کر چکی ہوتی ، معاشرے کی اصلاح کی ذمہ داری ہم نے کچھ لوگوں کو حکمرانوں کی صورت تفویض کر دی، تعلیم سے محروم خوف خُدا سے دور ظالمانہ جاگیرانہ سوچ کا حامل یہ طبقہ ذاتی مفادات کی جنگ میں روند کراس رعایا کو گزر گیا ، عاصمہ جہانگیر نے وقت کے بڑے سے بڑے طاقتور فرعون کو خاطر میں لائے بغیر کلمہ حق کو بلند کیا ، کلمہ حق کو اس دور میں کہنا جوئے شِیرلانے کے مترادف ہے، اللہ سبحان و تعالیٰ خاص کام خاص لوگوں سے لیتا ہے اور بے شک عاصمہ کی ہر مظلوم اور ہر نا انصافی کیلئے کی گئی طاقتور کوشش ہر وکیل ہر عورت ہر شہری کیلیۓ مشعل راہ ہے؛ عاصمہ جہانگیر جومعیاری سلجھی ہوئی اور نفیس الفاظ کی مالکہ ہیں۔
جب ملک کو در پیش کسی مشکل صورتحال کو سیاق و سباق کے ساتھ عام فہم الفاظ میں آسان طریقے سے بیان کرتیں تو قارئین کو اصل بات اور اس میں موجود نا انصافی دکھائی دیتی ، ہم میں سے کتنے جانتے ہیں، کہ جب جب گمشدہ افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تو عاصمہ پیش پیش رہیں ، عافیہ صدیقی جن پر آج تک اعتراف کرتی ہوں کہ میں نے نہیں لکھا نہیں کوئی آواز نہیں اٹھائی ، وجہ صرف یہی ہے کچھ حساس معاملات محض ازراہ تفنن یا تحریرکی طاقت کو واضح کرنے کیلئے نہیں لکھے جاتے ، بلکہ جب آپکو کمزور ارباب اختیار کی ذہنی غلامی کا پختہ یقین ہو توخانہ پُری کر کے کسی زندگی سے مذاق نہیں کیا جا سکتا ، اپنی حکومت کے غلامانہ رویّے کا شدت سے احساس ہی لکھنے میں مانع رہا کہ عافیہ کے معاملے میں کسی بھی دور حکومت میں کچھ ہونے والا نہیں ، مگر عاصمہ اتنی بہادر دلیر عورت کہ عافیہ کے بیٹے کو لے کر اپنے وقت کے ڈکٹیٹر مشرف کے راستے میں کھڑی ہو گئیں ، حال ہی میں ٹرمپ کی طرف سے بیت المقدس کو دارالخلافہ بنانے پر احتجاج میں پیش پیش کون تھیں؟ یہی عاصمہ جہانگیر تھیں ، برھان وانی کی شھادت میں بھارت کے خلاف مظاہرے کرنے والی یہی بہادر رہنما تھی ، انصاف کو خود اسی کے ایوان میں کٹہرے میں کھڑا کر کے ہر بے انصافی کو بیان کرنے والی یہ عورت تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔
موجودہ جاری جانبدارانہ ٹرائل جو صرف 1979 کی طرح ایک ہی شخص اور اس کے خاندان کے گرد گھوم رہا ہے، اس جانبداری پر عاصمہ کی جانب سے بھرپور مزاحمتی بیان جب سامنے آیا تو الفاظ کا ایسا برمحل اور مکمل چناؤ تھا کہ نہ تو توہین عدالت ہوئی اور نہ ہی بیان میں کوئی کمی محسوس ہوئی ، عاصمہ نے عدالتی ریمارکس پر شدید ترین برہمی کا اظہار کے عدالتی طریقہ کار کو غیرقانونی انداز قرار دیا ، برننگ ایشوز پر ان کی دبنگ گفتگو ہمیشہ باور کرواتی ہے کہ تعلیمی ادارے کیسے تہذیب اور شائستگی سے انسان کو جزبات میں پر قابو پانا سکھاتے ہیں ، ان کو سن کر بہت سے لوگ بہت کچھ سیکھتے ہیں، عاصمہ بطور پاکستانی بطور خاتون ایسی با ہمت اور قابل رشک خاتون ہیں کہ ان کے طریقہ کار سے اختلاف کرنے والے بھی ان کی حق گوئی اور بہادری کے معترف ہیں، ایسا معاشرہ جہاں مرد کو کلی اختیارات دیے گئے ہوں ایسے میں ایسی خاتون کا ان کے سامنے ڈٹ کر ہر محاذ پر فتح حاصل کرنا یقینیا اللہ کی رضا کے بغیر ممکن نہیں تھا، ان کی ذات کو ہدف تنقید بنانے کی بجائے سوچیں ہمارے لئے ان کی کونسی خوبیاں ہیں۔
اجتماعی خدمات کو دیکھیں اور ثابت قدمی سے حق لینے کی جدوجہد کو پرکھیں یہی ہمارے لئے ہر انسان کو جانچنے کا پیمانہ ہونا چاہیے، کہ ہمیں کسی انسان سے بطور قوم نقصان پہنچ رہا ہے یا فائدہ مل رہا ہے، کسی کا دین کیا ہے اس کے اعمال کیا ہیں؟ کسی کیلیۓ اچھا نہیں کر سکتے تو برا بھی مت کریں خاص طور سے جو اب دنیا میں موجود نہیں ہے ، اللہ کی پکڑ سے ہم سب کو ڈرنا ہے ، عاصمہ کا قصور صرف ایک ہے اس نے جانبداری سے زندگی نہیں گزاری ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور کامیاب ہوئی ، ہاکستان میں ہر ادارہ خواہ وہ طاقتور ادارہ انصاف کا ہے یا فوج کا ہے یا سویلین ادارہ ہے، اس خاتون نے عدلیہ کو لاجواب کیا فوج کے آمروں کو سر عام للکارا ، ایسا رویہ خاص طور سے کسی عورت کا ہمیں کہاں گوارہ ہے۔
پاکستان میں موجود نا انصافیوں کو اس نے برملا بیان کیا ہے اور کسی قسم کا خوف ذہن میں لائے بغیر اپنا فرض بطور وکیل اور بہترین شہری ادا کیا ، حقوق انسانی اور خاص طور سے مظلوم بے سہارا ستم رسیدہ خواتین کیلیۓ ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ، ہر نا انصافی کے خلاف آواز ہی نہ اٹھانا بلکہ جدوجہد بھی کرنا ان کا شیوہ تھا۔ قرآن پاک ہمیں بتاتا ہے کہ کس قدر پسند ہیں اللہ کو وہ لوگ جو کلمہ حق کو بلند کرتے ہیں، عاصمہ جہانگیر کے دینی معاملات وہ جانیں اور ان کا رب جانے ، لیکن پسی ہوئی خلقتِ خُدا کیلیۓ آواز اٹھانے والی بہادر اور انسانی مظالم کا شکار مظلوموں کی وہ ایسی آواز تھی کہ جب جب کہیں کوئی ظلم خصوصا عورتوں پر ڈھایا جائے گا عاصمہ جہانگیر یاد بہت آئیں گی۔