برصغیر کی تاریخ کے عظیم ترقی افسانہ نگاروں میں شمار ہونے والے سعادت حسین منٹو اور عصمت چغتائی بھی شامل ہیں، منٹو نے بہت سی دلچسپ باتیں عصمت چغتائی کے حوالے لکھی ہیں، وہ عصمت چغتائی اور اپنے بارے میں بھی لکھا۔
منٹو کی تحریر کی چند سطریں! آج سے تقریباً ڈ یڑھ برس پہلے جب میں بمبئی میں تھا۔ حیدر آباد سے ایک صاحب کا پوسٹ کارڈ موصول ہوا۔ مضمون کچھ اس قسم کا تھا۔
’’یہ کیا بات ہے کہ عصمت چغتائی نے آپ سے شادی نہ کی؟ منٹو اور عصمت۔ اگر یہ دو ہستیاں مل جاتیں تو کتنا اچھا ہوتا مگر افسوس کہ عصمت نے شاہد سے شادی کرلی اور منٹو۔۔۔‘‘
مزید وہ لکھتے ہیں! انہی دنوں حیدر آباد میں ترقی پسند مصنفوں کی ایک کانفرنس ہوئی۔ میں اس میں شریک نہیں تھا۔ لیکن حیدر آباد کے ایک پرچے میں اس کی رو داد دیکھی، جس میں یہ لکھا تھا کہ وہاں بہت سی لڑکیوں نے عصمت کو گھیر کر یہ سوال کیا۔’’ آپ نے منٹو سے شادی کیوں نہ کی؟‘‘
منٹو کی اس تحریر پر اعتراض بھی اٹھے خیر بات عصمت چغتائی کی ہو رہی ہے تو آج عصمت چغتائی کا یوم پیدائش ہے۔ جس پر گوگل بھارت نے ان کا ڈول بھی بنا کر ویب پر نمایا رکھتے ہوئے ان کی اداب کے حوالے سے خدمات پر خراج تحسین پیش کیا۔
عصمت چغتائی 21 اگست 1915 کو اتر پردیش میں پیدا ہوئیں۔ عصمت چغتائی جودھ پور میں پلی بڑھیں جہاں ان کے والد مرزا قسیم بیگ چغتائی ایک سول ملازم تھے۔1942میں عصمت کی شاہد لطیف سے شادی ہوئی جس سے ان کی دوبیٹیاں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے ابتدائی طورپر تدریس کے شعبے سے خود کو وابستہ رکھا بعد میں مکمل طورپر تخلیق نگاری سے ناطہ جوڑ لیا۔
عصمت چغتائی نے 1943سے 1978تک تقریباً 14 فلموں کے لیے اسکرپٹ لکھے ،ضدی یہ فلم 1948 میں عصمت چغتائی نے لکھی تھی۔ 1950 میں آرزو فلم کے انھوں نے ڈائیلاگ لکھے اور اسکرین پلے و کہانی بھی عصمت چغتائی کی ہی تھی۔ 1958 میں انہوں نے میں سونے کی چڑیا فلم کی کہانی لکھی۔
عصمت چغتائی نے اپنے سماج میں عورت کے اخلاقی اور جنسی استحصال پر پرزور احتجاج کیا اور مرد پرست معاشرے میں اس کے حق کے لیے زور دار آواز بلند کی جس کے نتیجے میں انہیں بدنامی اور تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن انتہائی بے جگری اور دلیری سے حالات کامقابلہ کیا عصمت چغتائی کا ایک افسانہ “لحاف ” لاہور ایک ادبی رسالے’’ادب لطیف‘‘ میں شایع ہوا جس پر ان کوفحش نگاری کا الزام سہنا پڑا اور ان پر مقدمہ بھی دائر ہوا۔
افسانہ لحاف کے بارے میں عصمت چغتائی اپنی آپ بیتی میں لکھتی ہیں کہ” لحاف سے پہلے اور لحاف کے بعد میں نے جو کچھ لکھا اس پر کسی نے غور نہیں کیا۔ لحاف کا لیبل اب بھی میری ہستی سے چپکا ہوا ہے۔ لحاف میری چڑ بن گیا۔ میں کچھ بھی لکھوں لحاف کی تہوں میں دب جاتا۔ لحاف نے مجھے بڑے جوتے کھلوائے۔ وہ اپنی کہانیوں سے سچ لکھنے پرقائم و دائم رہیں۔ برہنہ سچ سے کڑوے سچ تک ،ہرطرح کاسچ لکھتی رہیں ، جس کی تمازت آج بھی معاشرے میں محسوس کی جاسکتی ہے۔
عصمت چغتائی نے اپنے افسانوں میں بہت سارے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ جذبات نگاری، مکالمہ نگاری، منظر نگاری کے بہترین نمونے ان کے افسانوں میں نظر آتے ہیں۔ ان کے مشہورِ زمانہ ناولوں میں ضدی، معصومہ، ٹیڑھی لکیر وغیرہ شامل ہیں۔ ٹیرھی لکیر کا انگریزی میں بھی ترجمہ کیا گیا۔
بھارتی اداکار نصیرالدین شاہ نے ان کے کہانیوں کو تھیٹر میں پیش کیا، جبکہ پاکستان کی مشہور کتھک ڈانسر شیما کرمانی نے ان کی کہانیوں کو تھیٹر کے لیے منتخب کیا۔
عصمت چغتائی کی وفات 1991 میں ہوئی تھی۔ عصمت چغتائی کو اردو افسانے کی تاریخ میں ایک جی دار اور بڑی افسانہ نگار کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔