مالدیپ (اصل میڈیا ڈیسک) حال ہی میں ایک ناکام قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہو جانے والے مالدیپ کے سابق صدر محمد نشید کو علاج کے لیے اب جرمنی پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ بات مالدیپ کے دارالحکومت مالے میں حکام نے بتائی۔
محمد نشید کی عمر اس وقت 53 برس ہے اور وہ مالدیپ میں ملکی پارلیمان کے اسپیکر کے منصب پر فائز ہیں۔ وہ بحر ہند کی مجموعہ جزائر پر مشتمل ریاست مالدیپ میں جمہوری تحریک کے بانیوں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں جو تحفظ ماحول کے لیے بھی بہت سرگرم رہتے ہیں۔ سابق صدر محمد نشید کو ایک ہفتہ قبل دارالحکومت مالے میں ایک بم حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ بم ایک موٹر سائیکل کے ساتھ باندھا گیا تھا اور دھماکا ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کیا گیا تھا۔
اس بم حملے میں محمد نشید شدید زخمی ہو گئے تھے اور ڈاکٹروں کو ان کی جان بچانے کے لیے مسلسل 16 گھنٹوں تک ان کا آپریشن کرنا پڑا تھا۔ اس دوران بم دھماکے کے نتیجے میں ان کے جگر، پھیپھڑوں اور پیٹ میں گھس جانے والے دھاتی ٹکڑے نکال لیے گئے تھے۔
محمد نشید کو مالے کے ایک ہسپتال سے آج ہی ڈاکٹروں نے یہ کہہ کر فارغ کر دیا تھا کہ اب انہیں مزید علاج کے لیے جرمنی لے جایا جا سکتا ہے۔ ہسپتال سے فارغ کیے جانے کے بعد انہیں انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کے تحت مالے کے ہوائی اڈے لے جایا گیا، جہاں ایک خصوصی پرواز ان کی آمد کی منتظر تھی تاکہ انہیں لے کر جرمنی کے لیے روانہ ہو سکے۔
سابق صدر نشید کی مالے کے ہسپتال سے روانگی کے وقت ہسپتال کے عملے نے ان کی ایک تصویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی۔ بعد میں محمد نشید نے چھ مئی کے روز خود پر قاتلانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ ٹوئٹر پر اپنا ایک پیغام بھی پوسٹ کیا، جس میں انہوں نے مالے کے ہسپتال کے عملے کا دلی شکریہ بھی ادا کیا۔
مالدیپ کی پولیس محمد نشید پر اس بم حملے کے سلسلے میں اب تک تین افراد کو گرفتار کر چکی ہے اور پولیس کے تفتیشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مشتبہ حملہ آوروں کا تعلق مسلم انتہا پسندوں سے ہے۔ اب تک لیکن کسی بھی عسکریت پسند یا انتہا پسند گروہ نے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔
مالدیپ کی آبادی صرف تین لاکھ چالیس ہزار ہے اور ملکی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے۔ وہاں ماضی میں زیر زمین انتہا پسند مسلم گروہ بھی سرگرم رہ چکے ہیں۔
اکتوبر 2019ء میں ملکی پولیس نے ایک ایسے مشتبہ دہشت گرد کو گرفتار کر لیا تھا، جو اس ملک سے دہشت گرد تنظیم داعش یا ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے لیے جنگجو بھرتی کرتا تھا اور جس نے مالدیپ کے درجنوں باشندوں کو لڑنے کے لیے شام بھی بھجوایا تھا۔
محمد نشید نے مالدیپ میں 2008ء میں اس وقت تک ملک میں عشروں سے قائم ایک ہی جماعت کی حکومت ختم کر دی تھی، جب انہیں اس ملک کا پہلا جمہوری طور پر منتخب صدر بننے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔
صدر بننے کے چار سال بعد 2012ء میں ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ اور ان کی ڈیموکریٹک پارٹی 1,192 جزائر پر مشتمل اس جنوبی ایشیائی ملک میں جمہوریت کو مسلسل مضبوط بنانے کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔