تحریر: اسلم انجم قریشی عوام کی اجازت کے بغیر ممبران کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ اپنی ذاتی خواہش پر استعفیٰ دے عوام سے حقوق کا دعوی کرنے والے چند لمحے میں ان کے ووٹ کے تقدس کو اس طرح کچل دیا جاتا ہے جیسے ممبران کا عوام سے کھبی واسطہ ہی نہ تھا ان ممبران نے اپنی دادا گیری یوں کہہ لیں غنڈہ گردی جب چاہئے عوام کو بدو کے ساتھ الو بنا لیتے ہیں یہ گھٹیا عمل یہ معاشرے میں بیگاڑ پیدا کر رہا ہے ایک جانب دیکھیں کہ جب ان امیدوار وں کو ووٹ کی غرض تھی تو عوام سے انہوں نے انتخابات کے دوران کیا کچھ وعدہ نہیں کیا اور اب اپنی سیاسی حکمت عملی کے بھینٹ عوام کے مقدس ووٹ کو کس بے دردی کی طرح روندتے ہوئے اور بڑے فخر سے استعفی دے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عوام ہمیں پھر سے منتخب کر لیں گے کیونکہ عوام تو بے بس ہوتی ہے ممبران ا سمبلی جسے کہتے ہیں جس کی لاٹھی اس کی بھینس اور جب بھینس پانی میں چلی جائے تو پھر یہ نام نہاد عوام کے سامنے دوبارا اپنا رونا روتے ہیں۔
ممبران اسمبلی کا بنیادی و آئینی و قانونی یہ اختیار ہے کہ وہ اپنے حلقے کی خدمت کریں اور ملک و قوم کی ترقی کے لئے اپنا بھرپور کرداراحسن طریقے سے انجام دیں لیکن کم بخت ممبران اسمبلی اپنی ذاتی انا کی خاطر عوام کے ووٹ کے تقدس کو اس طرح پامال کرتے ہیں جس پر انتہائی دکھ اور افسوس ہوتا ہے کیونکہ اس کے بغیر عوام کے پاس کوئی چارا نہیں لیکن یہ بے حس اکین اسمبلی ایک عرصے سے اس گھناونے جرم کو اپنائے ہوئے ہیںالبتہ عوام سے جس طرح انتخابات کے دوران ان کی مشاورت سے اور ان کے قیمتی ووٹ سے منتخب ہو کر اراکین اسمبلی کا آئین اور قانون کے مطابق ھلف اٹھاتے ہیں جس میں واضح لکھا ہوا ہے کہ عوام کی خدمت اور ملک کی سلامتی اور ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے پھر اپنی دکان چمکانے کی خاطر عوام سے صلاح کے بغیر اسمبلی سے استعفیٰ دینا کونسی عوام کی خدمت اور ملک اور قوم کی ترقی ہے ان اراکین اسمبلیوں کے طور طریقے تو دیکھیں اپنی اپنی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والے اراکین جب انتخابات میں جو عوامی اجتماع ہوتا ہے اس میں عوام کو سبز باغ اور نہ جانے کیا کیا وہ وعدے جو کھبی وفا نہ ہوئے اور آج اس کے حلقے کی عوام بے یارو مددگار دربدر ٹھوکریں کھا رہی ہیں لوگوں کے اندر جس قدر غم و غصہ دیکھنے کو ملتا ہے تو یقین جانیئے دل خون کے آنسوں روتا ہے کہ یہ نام نہاد عناصر کس قدر عوام کے حقوق کو پامال کر رہے ہیں اور یہ عوام کے حقوق غصب کرنے کے مترادف ہورہے ہیں اور یوں کہہ لیجیے جیسے یہ عوام کے مجرم ہیں اور عوام انہیں سزا ضرور دیں جس کا طریقہ یہ ہے کہ جب بھی یہ عوام کے پاس آئیں ان کا استقبال جوتیوں کے ہار سے کیا جائے کیونکہ یہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے اگران میں ذرا بر بھی شرم کا مقام ہے تو یہ آئندہ عوام کو دھوکہ نہیں دیں گے اور نہ کھبی یہ عوام کی اجازت کے بغیر کوئی ایسا فیصلہ نہیں کریں گے جس سے عوام کے حقوق سلب ہوں دوسری بات یہ اراکین اسمبلی جب اپنی پارٹی کے توسط سے منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں تو ان کا کردار دیکھتے ہیں تو ہنس روتا ہے نہ ان کے پاس مہذب انداز ہوتا اور نہ ہی ان اراکین اسمبلی کو عوام سے وہ وعدے جو انہوں نے انتخابات کے دوران کہا تھا کے آپ کے حقوق کی جنگ آخری سانس تک جدوجہد جاری رکھیں گے لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے جس کی مشال بے شمار ہے ہوتا کیا ہے کہ یہ اراکین اسمبلی اپنی پارٹی کی مجبوری کے باعث اپنی عوام کے مسائل سے روگردانی کرتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات پر پارلیمنٹ سے احتجاج کرتے ہوئے پارلیمنٹ سے باہر آجاتے ہیں جب کہ ہونا یہ چاہئے کہ احتجاج اراکین اسمبلی کا بنیادی و قانونی وآئینی حق ہے لیکن روایت غلط ہے جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ اراکین اسمبلی پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اپنا احتجاج کریں اس کے علاوہ وہ اراکین اسمبلی جنہیں عوام کے بنیادی مسائل پر توجہ دینی چاہئے مگر وہ پارٹی کی مصلحت کے تحت وہ عوام کے حقوق کے لئے ایک لفظ ادا نہیں کرتے بس اپنی پار ٹی سیاست کے نذر کردیتے ہیں عوام بھاڑ میں جائے جب انتخابات ہونگے عوام کو قربانی کا بکرا بنا لیا جائے گا ملک میں جتنی بھی سیاسی جماعت ہیں سب نے یہ عمل اپنا رکھا ہے جب کھبی بھی کوئی ایسا اپنی ذات یا سیاسی کشمکش سامنے آتی ہے تو ان کا زور اراکین اسمبلی کے استعفی پر چلتا ہے اور پارٹی کے سر براہ ہو یا ان کا رہنما بے دھڑک کہدیتے ہیں ہمارا مئسلہ حل نہیں کیا تو اراکین اسمبلی استعفیٰ دے دیں گے اور کئی غیر اخلاقی حربے استعمال کئے جاتے ہیں اب تک کئی ایسے سیاست سے تعلق رکھنے والے جو کہتے ہیں ہم عوام کے حقیقی نمائندے ہیں۔
انہوں نے اپنی انا کی خاطر اسمبلیوں سے استعفیٰ دیے اور یہ سلسلہ ایک عرصے سے ہم دیکھتے چلے آرہے ہیں انتہائی افسوس کا مقام ہے عوام اپنے قیمتی ووٹوں اور کس قدر تکلیف اٹھا کر حتیٰ کہ اپنی جان بھی گوا دی ان کم بخت اراکین کومیں عناصر کہوں گا جو عوام کا بری طرح استحصال کر رہے ہیں جنہیں عوام منتخب کرتی ہے اور یہ ذرا سی دیر میں اپنا استعفی ٰ دے دیتے ہیں کیا یہ عوام کے مجرم نہیں یقینا یہ عوام کہ مجرم ہیں لاکھ اختلاف ہو لیکن انہیں استعفی دینے کا کوئی اختیار نہیں عوام کی مرضی کے بغیر استعفی دینا آئینی و قانونی جرم ہے ہاں اصولی اختلاف رکھنا و جائز احتجاج کرنا آئینی و قانونی حق ہے لیکن وہ بھی اس صورت میں کہ آیا اس میں عوام کی مشاورت شامل ہے بھی یا نہیں اور نہیں تو ان اراکین اسمبلی کے استعفی ٰ منظور نہ کئے جائیں اواگریہ اراکین اسمبلی عوام کے حقوق کی پاسداری نہیں کرسکتے اور عوام کے مسائل اور ان کے حقوق کی ذمہ داری پوری کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو ان کے استعفی ٰ منظور کئے جاسکتے ہیں اور بلکہ ان کے استعفی منظورکے ساتھ ان کو مکمل نااہل قرار دیا جائے تاکہ یہ مکروہ فریبی دھوکے باز آئندہ کھبی بھی عوام کے سامنے نہ آسکیں اور یوں یہ فرسودہ روایات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نا پید ہو جائے ایک اور بات ابھی حال ہی میں جو ملک کی صورت حال میں اراکین اسمبلیوں کے استعفیٰ کے معاملات چل رہے ہیں جن میں ایک جماعت جس نے دو ہزار تیر٢٠١٣ کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور ملک کے مختلف صوبو ں سے اس جماعت کے نمائندے منتخب ہوئے اور جماعت کے سربراہ سمیت اراکین اسمبلی نے پارلیمنٹ میں باقاعدہ ارکان کی حیشیت سے اپنا اپنا حلف اٹھایا۔
Sardar Ayaz Sadiq
اور اب یہ جماعت اور اس کے سربراہ اس یعنی ٢٠١٣ کے انتخابات کو جعلی قرار دے کر خود سمیت اپنے اراکین اسمبلی کے استعفیٰ دینے کو بضد ہیں اور ان اراکین اسمبلی کے استعفیٰ اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس موجود ہیں جبکہ اس سلسلے میں میں نے اسپیکر قومی اسمبلی کو اپنے کالم کے ذریعے ایک اپیل کی تھی کہ ان اراکین قومی اسمبلی کے استعفٰی منظور نہ کئے جائیں بلکہ ان اراکین اسمبلی جنہوں نے استعفیٰ پیش کئے ہیں اور ان کہ جماعت کے سربراہ سے درخوست کی تھی کہ اسمبلی سے استعفیٰ نہ دیں بلکہ پارلیمنٹ میں ایک مضبوط بھر پور انداز میں اپوزیشن کا کردار ادا کریں تاکہ عوام کی نمائندگی کا حق ادا ہو لیکن نہ جانے کس کی افواہ اور کس عناصر کی چال میں آکر اس جماعت کا سربراہ اراکین اسمبلی کو مجبور کر رہا ہے قومی اسمبلی کے اسپیکر کا یہ فیصلہ درست ہے ان اراکین اسمبلی کے اجتماعی نہیں انفرادی طور پر غور خوز کرنے کا حق اس لئے ہے کہ یہ انفرادی طور پر ہی عوام نے ان کو اپنے قیمتی ووٹ سے منتخب کیا ہے اور یہ اپنا فیصلہ عوام کی رضامندی کے تحت آزاد حیشیت سے استعفیٰ دینے کے مجاز ہیں نہ سربراہ کی خواہش پر یہ اراکین اسمبلی استعفیٰ دیں سب سے بڑا تضاد کہ جس پارلیمنٹ کو یہ جعلی قرار دے رہے ہیں اور پھر پارلیمنٹ میں حلف بھی اٹھا رہے ہیں قوم اس بات کو سمجھے یہ سرا سر عوام کے ساتھ دھوکہ اور بہت بڑا جرم ہے یوں سمجھیں یہ قومی مجرم ہیں اس طرح اس سے قبل جن اراکین اسمبلی نے استعفی ٰ دیے وہ بھی قوم کے مجرم ہیں جس میں انقلابی مارچ کے سربراہ بھی قومی مجرم ہیں جنہوں نے پچھلے ادوار میں اسمبلی سے استعفٰی دیا تھا اور کوئی بھی عوام کے ووٹوں کا استحصال کرے گا وہ قوم کا مجرم ہوگا اس کی سزا یہ ہے کہ عوام اس کوآئندہ منتخب نہ کرے جبکہ ابھی حال ہی میں ملتان سے منتخب ہونے والے قومی اسمبلی کے ارکان جس نے پارلیمنٹ میں اپنا جلد بازی میں استعفیٰ قومی ا سمبلی کے اسپیکر کو پیش کیا قبل اس کے استعفٰی سے میں نے اس رکن سے درخواست کی تھی کے آپ استعفی نہ دیں بلکہ پارلیمنٹ کی زینت بنے لیکن موصوف نے استعفی دے دیا اورر اس طرح اس نے اپنے حلقے کے عوام کے ساتھ سرا سر زیادتی کی اس ارکان نے اس لئے استعفیٰ دیا کے وہ اس جماعت کے پلیٹ فام سے منتخب ہوا تھا جبکہ ایسا نہیں عوام نے اس کو اس کی حیشت کودیکھ کر ووٹ دیا تھا تاہم اس کا استعفیٰ منظور ہوگیا اور اب وہ دوبارا ضمنی انتخاب میں حصہ لے رہا ہے بہرحال ان موصوف نے جو انکشاف کئے ہیں قوم آزادی مارچ کے منصوبوں پر غور کریں کہ وہ قوم کو کس جانب لے جانا چاہتے ہیں۔ لہذا میں اس جماعت کے سربراہ سے پھر مودبانہ التماس کروں گا کہ وہ اپنی ضد کو چھوڑیں اراکین اسمبلی کو استعفیٰ پرمجبور کرنے کے بجائے پارلیمنٹ میں اپنا جائز موقف اور بھر پور انداز میں اپوزیشن کا کردار ادا کریں کیوں کہ پارلیمنٹ کسی کی جاگیر نہیں یہ عوام کے حقوق کی آواز اٹھانے کی ایک درس گاہ اس کو مقدس بنا نا بھی آپ کے اختیار میں اور اس کے تقدس کو پامال کرنا بھی آپ کے اختیار میں لیکن عوام اس گھناونے جرم کو کسی بھی صورت برداست نہیں کرے گی جس سے اس پارلیمنٹ کو قدغن لگے۔ اور اس کہ علاوہ آزادی مارچ کے سربراہ کو مشورہ ہے کہ وہ صوبہ سرحد کی عوام کو بے یارو مددگار نہ کرے بلکہ ایسا عمل کریں جس پرلوگ رشک کریں اور قومی اسمبلی کے پارلیمنٹ میں بھی اپنا ایسا کردار ادا کریں کہ عوام کی نظریں فقط آپ کی طرف ہوں لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب آپ کچھ کر کر دیکھائیں۔ موجودہ حالات میں ملک و قوم کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے ہمارے آپس کے اختلاف سے ملک کی معیشت تباہی کے دھانے پہنچ رہی ہے اور شر پسند پھر سے سازشوںمیں مصروف ہوگئے ہیں ملک میں چاروں طرف ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جبکہ ملک کی پاک آرمی افواج پاکستان ان دہشت گردوں کو ٹھکانے لگانے میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کر رہی تو ہما رابھی فرض بنتا ہے کہ تمام اختلاف بھلا کر ملک کے اندر امن وامان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے کلیدی کردار ادا کریں اور ضرب عضب کی کامیابی کے لئے افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجائیں تاکہ ملک دشمن قووتوں کو پاک سر زمین سے نیست نابوت کر دیں۔منتخب حکومت کے خلاف خوش فہمی مبتلا لوگ وسط مددتی انتخابات کی سرگوشیوں میں مصروف ہو رہے ہیں جبکہ یہ ایک محض خواب ہے جو کھبی پورا نہیں ہوگا موجودہ حکومت اپنی آئینی مددت پوری کرے گی اور اس کا بنیادی حق ہے جہاں تک تعلق حکومت کی مختلف جگہ ناقص کارکردگی نظر آرہی ہے اسے دور کرنے کے لئے حکومت اپنی جامع منصوبہ بندی اختیار کرے اور وہ خامیاں اور کوتاہیوں پر نظر ثانی کرے تاکہ ملک میں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ ممکن ہو بقول حکومت وزیر اعظم کا کہ دھرنے والے اپنا کام کریں اور حکومت اپنا کام کررہی ہے اور حقیقت میں حکومت کو ملک وقوم کی بہتری کے لئے اپنا کام ہی سر انجام دینا چاہئے اور ان سازش عناصروں کی سازشوں کو بھی بے نقاب کرے جو ملک میں انتشار نفرت کو ہوا دے رہے ہیں حکومت اپنی بھی اصلاح کرے عوام حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں کہ کہیں گمراہ تو نہیں ہو رہے۔
Nawaz Sharif
ایک حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کا وزیر اعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میںوطن عزیز پاکستان اور عوام کے جزبات کی ترجمانی کرتا ہے اور یقینا ان کے ولولہ انگیز خطاب سے کئی لوگوں کی ہاتوں کی انگلیاں دانتوں میں آگئیں اور اس طرح پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنا بنیادی حق ادا کیا اور ملک کا وقار بلند ہوا لیکن بد نصیبی کے پاکستانی قوم نے چند عناصر کی باتوں میں آکر پاکستان کو بدنام اور اس کی اہمیت کو کمزور کرنے کی کوشش کی جو قابل مزمت ہے حالانکہ ہو نا یہ چاہئے تھا کہ و زیر اعظم نے اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں حقائق پر مبنی موقف پیش کر کے ملک وقوم کا سر فخر سے بلند کیا تو وزیر اعظم کی پاکستان وطن واپسی پر شاندار استقبال کیا جاتا۔ لیکن افسوس آج قوم نے انتشار ۔ نفرت میں اور بے شعوری کا لبادہ اوڑھ کر اپنا قیمتی وقت کو ضائع کردیاصد افسوس صد افسوسگزشتہ دنوں سے ملک میں ایک عجیب سی کیفیت طاری ہے یہ صرف تضاد پر مبنی ہے اگر اس کا بغور جائزہ لیا جائے تو حقیقت واضح ہو جائے اس کے لئے حکومت کو اس جانب توجہ دینے کے ساتھ باقاعدہ طور پر ملک میں پیدا کی جانے والی بے چینی کے پس پردہ وہ کونسے محرکات ہیں اسے قوم کے سامنے لایا جائے۔حکومت ملک کے تمام تجزیہ نگار کالم نگار ۔مورخ۔ دانشور ۔تحقیق نگار پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیاسے وابسطہ افراد پر مشتمل جلد ایک کانفرنس انعقاد کرے۔
دوسری جانب حکومت اپنے حکومتی انداز سے حکومت چلائے تاکہ عوم پر اس کا اثر ہو اب اس بات کو لے لیں کہ شاہرہ دستور یا ڈی چوک اسلام آباد پر دو جماعت کے دھرنے کو ختم کرانے اور ان سے مزاکرات کے لئے ایک سیاسی جرگہ جو کہ اپنے حصول میں ناکام رہا اور اس سیاسی جرگہ کو ناکام ہونا ہی تھا کیونکہ اس سیاسی جرگہ میں مفاد پرستی شامل تھی مفاد پرستی یہ تھی کہ وہ آئندہ اپنی سیاسی جرگہ حکمت عملی کو استعمال میں لائیں گے اور اس میں ناپسند شخصیت شامل ہیں جسے ہم اس سیاسی جرگہ کو تسلیم نہیں کرتے جبکہ بنیادی طور پر حکومت کو خود مزاکرات کرنے تھے کیونکہ اس سیاسی جرگہ سے حکومت کو کمزور سمجھا گیا ہے جب حکومت موجود ہے تو کسی تیسرے فریق کو شامل کرکے حکومت نے اپنی نااہلی کا ثبوت دیا۔ تاہم موجودہ حالات میں وزیر اعظم سمیت حکومت نے انتہائی صبرو تحمل برداشت کا مظاہرہ کیا جس پر حکومت کی نیت پر شک کرنا زیادتی ہوگی حکومت نے موجودہ صورت حال میں تدبر و حکمت عملی سے اپنا کردار ادا کیا ہاں البتہ ان دھرنا دینے والوں سے نسبتنا حکومت کا بہتر عمل رہا جس پر عنقریب بحث مباحثہ کیا جائے گا اس سلسلے میں حکومت اہتمام کرے دھرنے والے کہتے ہیں جس میں آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے رہنما اپنے شرکاء سے یوں کہتے ہیں ان دھرنوں نے لوگوں میں شعور دیا اب شعور کس قسم کا دیا یہ دیکھیں۔ لوگوں کی عزت نفس سے کھیلیں ۔لوگوں کی عزت اچھالیں نہ کوئی ادب نہ کوئی آداب جس پر یہ کہا جائے کہ ( با ادب با نصیب ۔بے ادب بے نصیب) بات تو بہت ہیں اور وقت پر ضرور کہیں جائیں گی۔ فی الوقت میں اتنا کہنا چاہوں گا کہ آزادی مارچ سے ملک کی تباہی ضرور ہوئی اور انقلاب مارچ سے ملک عذاب میں مبتلا ہوا یہ ہے دھرنوں سے شعور عوام بالغ نظری سے غور کریں بقول وزیر اعظم کے دھرنوں کا اپنا کام جو کہ دھرنے والے اپنا کام کرتے رہیں اور حکومت کا اپنا کام جو کہ حکومت کو اپنا ہی اور ملک وقوم کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کرنا ہے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا کام۔ کام۔ کام۔