اسلام آباد (جیوڈیسک) ارکان اسمبلی کے ٹیکس گوشواروں میں تضادات کا انکشاف ہوا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہونے والے ملک کے 47 فیصد سیاستدانوں نے انکم ٹیکس ادا نہیں کیا اور ان میں سے 12 فیصد کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر ہی نہیں ہے، جبکہ ہر رکن اسمبلی کاغذات نامزدگی میں یہ عہد نامہ بھی جمع کراتا ہے کہ غلط معلومات پر اس کا انتخاب کا لعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔
سینئر صحافیوں کی رپورٹ کے مطابق 270 میں سے تمام ٹیکس نادہندگان اراکین قومی اسمبلی کا تعلق بڑی سیاسی جماعتوں سے ہے، ان میں نون لیگ کے 54، تحریک انصاف کے 19، پیپلز پارٹی 13، جے یو آئی ایف 7، ایم کیو ایم 5، پی کے ایم اے پی اور جماعت اسلامی کے 3،3 اور اے اے پی ایم ایل، پی ایم ایل، اے این پی اور این پی سے ایک ایک رکن قومی اسمبلی شامل ہیں، جبکہ 15 نادہندگان آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے۔
ایسے ارکان قومی اسمبلی جن کے کاغذات نامزدگی میں ٹیکس گوشواروں میں تضاد پایا گیا، ان میں وزیر اعظم نواز شریف، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، شاہ محمود قریشی، چودھری نثار، چودھری پرویزالہی، سردار ایاز صادق، مولانا فضل الرحمان، ڈاکٹر فاروق ستار، انوشہ رحمان، شفقت محمود، امین فہیم، عذرا پیچوہو، نفیسہ شاہ، نبیل گبول اور شازیہ مری شامل ہیں، جبکہ محمود خان اچکزئی، ظفر اللہ خان جمالی، امیر حیدر ہوتی، عابد شیر علی اور سردار یوسف بھی ٹیکس نادہندگان میں شامل ہیں۔
موجودہ قومی اسمبلی میں 30 ارکان نے این ٹی این رجسٹریشن ابھی تک نہیں کرائی۔ ان میں وزیر اعظم کے داماد کیپٹن(ر) صفدر سمیت ن لیگ کے 9 قانون ساز شامل ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے کل 372 اراکین میں سے 169 اراکین ٹیکس نادہندہ ہیں۔ 2012 تک خیبر پختونخوا اسمبلی کے 124 ارکان میں سے 81 ارکان نے ایک پائی ٹیکس نہیں دیا۔ وزیر اعلی پرویز خٹک نے بھی ایف بی آر ریکارڈ کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کیا۔
صوبائی وزیر خزانہ سراج الحق کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر ہی نہیں۔ سندھ اسمبلی کے 168 ارکان میں 59 انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ کم از کم 50 ارکان نے 2012 میں کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا جبکہ 15 ارکان کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر تک نہیں۔ بلوچستان کابینہ کے 8 ارکان سمیت اسمبلی کے 56 فیصد ارکان نے انکم ٹیکس کی ادائیگی نہیں کی۔
بلوچستان کی 65 رکنی اسمبلی میں سے محض 21 ارکان اسمبلی نے انکم ٹیکس کی ادائیگی کا دعوی کیا۔ انکم ٹیکس ادا نہ کرنیوالے 8 ارکان صوبائی کابینہ میں اہم وزارتوں کے قلمدان سے مستفید ہو رہے ہیں۔