کیا نئی اسمبلی چل پائے گی؟

National Assembly

National Assembly

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان میں آج اراکینِ قومی اسمبلی نے حلف اٹھا لیا ہے لیکن ملک کے کئی حلقوں میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ آیایہ اسمبلی چل پائے گی؟ تجزیہ نگاروں کی رائے میں اسمبلی میں بہت سے نامی گرامی افراد کی کمی محسوس کی جائے گی۔

مسلم لیگ نون کے رہنما طلال چوہدری نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسمبلی دھاندلی شدہ انتخابات کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئی ہے اور اس کے حوالے سے آئینی اور قانونی سوالات اٹھتے رہیں گے،’’ ان انتخابات سے پہلے دھاندلی کی گئی اور انتخابات کے بعد بھی جس طرح ووٹ کے تقدس کو پامال کیا وہ دنیا نے دیکھا۔ لیکن اس کے باوجود جو کٹھ پتلی حکومت بنانا چاہتے تھے وہ آج سادہ اکثریت کے لیے بھی دوڑیں لگا رہے ہیں۔ تما م طرح جبر، دھونس اور دھاندلی کے باوجود نواز شریف نے ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ کے قریب ووٹ لیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں ایک اسٹیبلشمنٹ کی پسند کا بندہ اقتدار میں آگیا لیکن کیا یہ بندہ عالمی اسٹیبلشمنٹ یا عالمی اداروں سے بھی نمٹ سکے گا، یہ بات کچھ ہی مہینوں میں واضح ہوجائے گی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا اس طرح کی اسملبیاں بن جاتی ہیں لیکن پھر ان کے نتائج قوم کو بھتنے پڑتے ہیں،’’پاکستان میں اس سے پہلے بھی اس طرح کی اسمبلیاں بنتی رہی ہیں جیسا کہ مشرف کے دور میں بھی ایسی ایک اسمبلی بنی تھی۔ لیکن ایسی اسمبلیوں کے نتیجے میں جو مسائل آتے ہیں، وہ پوری قوم کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ حقیقی عوامی رہنماؤں کو زبردستی ہرایا گیا۔ اس بات کا افسوس ہے کہ میں اسمبلی میں نہیں ہوں لیکن میں اپنے رہنما نواز شریف کے ساتھ ہوں۔‘‘

پی ٹی آئی اس جیت کا ابھی تک جشن منارہی ہے اور اس کے ارکان خوشی سے پھولے نہیں سما رہے لیکن عمران خان کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اسمبلی کی مدت مکمل اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب پی ٹی آئی اپنے وعدے پورے کرے۔ پارٹی کے رکنِ قومی اسمبلی مکیش کمار نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اگر عمران خان نے اپنے وعدے پورے کیے اور اچھے بیورکریٹ اور وزیروں کا انتخاب کیا تو یقیناً وہ کامیاب ہوں گے اور اسمبلی صیح طریقے سے چلے گی لیکن اگر وہ خوشامدیوں میں گھر گئے اور اپنے وعدے پورے نہیں کیے تو پھر دشواریاں ہوں گی۔ نمبر گیم مسئلہ نہیں ہے وعدے پورے کرنا مسئلہ ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ عمران خان برے لوگوں میں گھر جائیں کیونکہ یہ کسی بھی رہنما کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ ہر پارٹی میں اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ عمران خان سارے لوگوں کو لے کر کس طرح چلتے ہیں۔‘‘

نوے کی دہائی میں قوانین میں ترمیم کر کے پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں نے فلور کراسنگ کا دروازہ بند کر دیا تھا لیکن کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں اب اس کا دروازہ غیر محسوس طریقے سے کھول دیا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف تجزیہ نگار ڈاکڑ خالد جاوید جان کے خیال میں طاقت کے زور پر کوشش کی جائے گی کہ لوگ عمران خان کے ساتھ رہیں،’’اب اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مختلف طریقے استعمال کر کے پی ٹی آئی کو اقتدار میں لایا گیا ہے اور اب یہ کوشش کی جائے گی کہ سیاسی جماعتوں میں فاروڈ بلاکس بنوائے جائیں اور لوگوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ عمران خان کے ساتھ رہیں۔

عمران خان کا بھی یہ امتحان کے وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کیسے چلتے ہیں۔ اگر انہوں نے آزادانہ فیصلے کیے تو پھر انہیں چلتا کیا جائے گا اور اگر انہوں نے ہاں میں ہاں ملائی تو پھر شاید وہ چل جائیں۔ لیکن اگر آزادانہ فیصلوں کے نتیجے میں انہیں نکالا جاتا ہے، تو اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک اور حریف تیار ہوجائے گا، جو ملک کے لیے شاید بہتر نہ ہو۔‘‘