اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ میں پاناما پیپرز کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ جائیدادیں قطری کی ہیں تو پیسے کی منتقلی کاسوال ہی ختم ہو جاتا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔
سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب کے پاس قطر کے لیے سرمایہ تھا ہی نہیں۔
اس پر جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر جائیدادیں قطری کی ہیں تو پیسے کی منتقلی کاسوال ہی ختم ہو جاتا ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف نے پیسا باہر بھجوایا؟۔
جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ کاروبارمیاں شریف کا تھا تو کیا اب انکے بچوں کی ذمے داری ہے کہ منی ٹریل دیں؟۔
نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ مریم نواز وزیر اعظم کے زیر کفالت ہیں اور مریم نواز کے زیر کفالت ہونے کو ثابت کرنے کا کافی مواد موجود ہے، مریم نواز نے گوشواروں میں قابل ٹیکس آمدنی صفر ظاہر کی۔
نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں لندن فلیٹس کی بینی فیشل اونر شپ کی تفصیلات پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ بڑے میاں صاحب کے پاس قطر کے لیے سرمایہ تھا ہی نہیں۔
جسٹس عظمت سعید نے نعیم بخاری سے کہا کہ لگتا ہے پیر کی صبح صحیح سے کام نہیں کر پائے، آپ اپنی فارم میں واپس آئیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا کہ آج دلائل مکمل کر لوں گا، عدالت کا بہت وقت لے چکا ہوں۔
کمرہ عدالت میں درخواست گزار جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان، جہانگیر ترین سمیت دیگر قائدین بھی موجود تھے۔