تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا سلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو حصول علم پر زور دیتا ہے اور اس کا آغاز بھی حصول علم کے حکم سے ہوا۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِْ خَلَقَo ”(اے حبیب ۖ!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں نظامِ تعلیم ایک ہونے کی بجائے چھ قسموں پر مشتمل ہیں ۔ جس کی وجہ سے طبقاتی فرق ختم ہونے کے بجائے اگر بڑھ نہیں رہا، تو کم بھی نہیں ہو رہا۔ امیروں کے لیے الگ معیار کی تعلیم ہے، تو غریبوں کے لیے الگ، شہروں میں رہنے والے بچوں کے لیے الگ، دیہاتوں میں رہنے والے بچوں کے لیے الگ، سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے لیے الگ، اور پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے لیے الگ۔اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں ایک وجہ ہمارا سیاسی نظام ہے ، یہ سیاسی نظام ہی ہے جس نے محکمہ تعلیم پر بھی رشوت سفارش اور بدعنوانی جیسے لیبل لگا دئیے ہیں
محکمہ تعلیم ہر وقت سیاسی حکومتوں کے زیر عتاب رہتا ہے، اور ہر آنے والے حکمران اپنے دور حکومت میں سیاسی، خاندانی، مذہبی، اور دیگر بنیادوں پر ہزاروں من پسند نا اہل افراد کو اساتذہ کی پوسٹوں پر تعینات کرتے ہیں۔ اب جو اساتذہ صرف رشتہ داریوں اور رشوتوں کی بنیاد پر بھرتی کیے جائیں، تو کیا ان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ بچوں کو پڑھا سکیں گے؟ نتیجتاً ملک میں معیار تعلیم بڑھنے کے بجائے اس کا جنازہ نکل رہا ہے۔جس طرح ایک ہاتھ کی انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتی اسی طرح ہر انسان ایک جیسا نہیں ہو سکتا جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتا ہے
یعنی اچھائی کے ساتھ برائی اور برائی کے ساتھ اچھائی کا ہونا کوئی مضحکہ خیز بات نہیں سرائے عالمگیر تحصیل میں نصراللہ خان ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اور ایک اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر چوہدری جاوید اقبال سال برائے ( 2013 – 2014 ) میں کارکردگی مثالی تھی، تحصیل سرائے عالمگیر کے محکمہ تعلیم کو پنجاب میں ان دونوں افسراں کی انتھک محنت سے وہ مقام ملا جس سے تحصیل سرائے عالمگیر سے وابسظہ لوگوں کا سر فخر سے اونچا ہو گیا، کوئی ایسا سکول سرکاری یا پرائیویٹ نہیں جہاں یہ لوگ حاضری کے وقت نہ پہنچے ہوں، سکول کا تعلق وسط شہر سے ہو یا دور دراز گاؤں سے ، دھوپ ہو یا بارش ، موسم جیسا بھی ہو مگر ان کا تعلیم سے عشق کا جن سر چڑھ کر بولتا تھا،سکول کا اسٹاف تو دیر سے پہنچ کر کوئی معقول وجہ بیان کر دیتا تھا مگر کبھی بھی یہ لوگ اپنے فراہض میں کوتائی برتتے نہیں دیکھے گئے ، یہی وجہ تھی کہ سرائے عالمگیر کے پرائمری اور مڈل سکولز میں استادوں کی حاضری 100 % حقیقت بن گئی جس سے محکمہ تعلیم کا کھویا ہوا معیارماضی کا قصہ بن گیا۔
Education
سرائے عالمگیر میں 2013 سے قبل سکولز میں کسی محکمہ تعلیم کے افسر کی وزٹ خال خال تھی مگر نصراللہ خان اور چوہدری جاوید نے دفتر میں وقت گزارنے کی بجائے ” معیار ِ تعلیم ”کے لئے تحصیل بھر کے تمام پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں میں وزت کیا تو پتا چلا بہت سے سرکاری معلم حکومت اور عوام کو چونا لگا کر تعلیم کے نام پر لوٹ مار کر رہے ہیں،اور کچھ ایسی تعلیمی ادارے بھی سامنے آئے جو بغیر رجسٹریشن سکول چلا رہے ہیں، بعض کے پاس بلڈنگ فٹنس اور حفظان ِ صحت جیسے بنیادی certificate بھی نہ تھے،کمروں میں تازہ ہوا کی آمدورفت ،بچوں کے کھیلنے کا گرائونڈ،اور سکول لائبریری نام کی کوئی چیز نہ تھی۔پرائیویٹ تعلیمی سیکٹر مکمل بزنس بن چکا تھا، تحصیل سرائے عالمگیر کی سطع پر ان کی کاوششوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا رہے گا۔پہلے اور دوسرے دور میں سرکاری سکولوں میں میل اور فیمل ٹیچرز کی حاضری کو 100% بنایا اور اس میں کسی بھی مجبوری یا معزوری کو جواز نہ بننے دیا حالانکہ کچھ ایسے اساتذہ کرام تھے جو سیاسی ڈھیروں کی رونق بن کر تعلیم و تدریس کے فراہض سے خود کو بالا تر سمجھتے تھے، ایسا عملی طور پر اُسی وقت ممکن ہوتا ہے جب انسان اپنی ڈیوٹی کو فرض سمجھ کر سر انجام دیتا ہے۔
جاوید اقبال چوہدری اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر اور نصر اللہ خان ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر نے دن رات ایک کر کے پرائیویٹ سکولوز میں UPS اور USE حاصل کرنے کا 100 % تارگٹ دیا،محکمہ تعلیم کی اعلیٰ کارکردگی کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ پنجاب کی تحصیل سرائے عالم گیر نے 100 تارگٹ حاصل کر کے نمایاں کامیابی حاصل کرلی تھی۔ ایسے تمام سکولز جنکی عمارتیں بو سیدہ اور پرانی تھی ان کو خطرناک قرار دے کر خطرے کی گھنٹی کو قبل از وقت کی ٹھیک کروانے میں اپنا کردار اور اثرو سوخ استعمال کیا، سکولز ( پرائیویٹ اور سرکاری ) میں حفظان ِ صحت جیسے بنیادی لیکچرز کا اہتمام کروایا اور ڈینگی سمیت موزی امراض سے آگاہی اور شعور بچوں میں منتقل کروانے کے لئے اساتذہ کرام کو متحرک کیا لوگوں کا سرکاری سکولز پر اعتماد بحال کروایا اور گلی محلے میں کھلنے والے سکولوں کی حوصلہ افزائی اور راہنمائی فرمائی۔
عام والدین کی شکایات دور کرنے کے لئے پرائیویٹ سیکٹرز کو نظم و ضبط ( دیسوں کی وصولی فیسوں کا ریکارڈ ) درست حالت میں مرتب کرنے کا پابند کیا، ہر قسم کی جسمانی سزاؤں سے بچوں کو مستشنیٰ قرار دیا اور باقاعدہ کلاس رومز میں طلبہ سے تصودیق بھی کیا، جس کو طلباء و طلبات سمیت والدین اور سول سوسائٹی نے خوب سراہا۔صوبہ پنجاب کی تحصیل سرائے عالمگیر کو جہاں دیگر اعزازات حاصل ہیں وہاں محکمہ تعلیم بھی انفرادیت نظر آتی ہیں، یہ تحصیل سرائے عالم گیر ہی ہے جس میں سرکاری پرائمری اور مڈل سکولز کے طلباء و طلبات نے کامیاب پرائمری سائنسی نمائش کا انعقاد کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بقول علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی ضرورت اس امر کی ہے کہ پرائیویٹ معلم اور معلمہ کو بھی سرکاری اور غیر سرکاری سطع پر خراج تحسین پیش کیا جائے، اور تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر سہولیات کا نفاز کیا جائے، تا کہ بنیادی تعلیم میں معیار نظر آئے، محکمہ تعلیم پنجاب کو معیار تعلیم کی بلندی کے لئے ایسے ہی آفیسروں کو آگئے لانا ہوگا تا کہ تعلیمی میدان میں کھویا ہوا معیار ختم ہو سکے