اسرائیل روس اور امریکہ شامل ہو گئے بلکہ ا مر یکہ نے تو مستقل ڈیرے ڈا ل ر کھے ہیں ا و ر جتنا کا میا ب ا مر یکہ ہو ا ہے کو ئی اور نہیں ا مر یکی ا یجنٹوں کی بھر ما ر پاکستا ن میں مو جو د ہے بلخصو ص پاکستا ن کے ا کثر سیا سی شخصیا ت میر جعفر میر صا د ق کا کر د ا ر ا د ا کر رہی ہیں ا ب بھر ما ر ا یسی ہو گئی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کے کو ن کس کا ا یجنٹ ہے بھیس بدل بد ل کر لبا دھے او ڑھ کر ملک کی خیر خو ا ہی کا ڈھو نگ ر چا کر ملک کی ا سا سی نظر یا تی ا قتصا دی ، معا شی تبا ہی کر ر ہے ہیں ا مر یکہ کے با رے میں عو ا م بخو بی جا نتی ہے کے یہ ہما رے لئے مستقل خطر ہ ہے ا و ر نہیں جا نتے تو صر ف حکمر ا ں ا و ر سیا سی شخصیا ت ۔ حصو ل ا قتد ا ر کیلئے ہر سو د ا کر نا ملک کی بقا ء کو خطر ے سے د و چا ر کر نا ا ن کیلئے کو ئی معنیٰ نہیں ر کھتی ۔ہما ر ا ا یٹمی اثا ثہ ہر و قت خطر ے میں ہے۔
ا مر یکی خفیہ طیارے ۔خفیہ ا یجنسیا ں و غیر ہ جب چا ہیں جیسا چا ہیں کر گزرتی ہیں ا س ملک کو ا للہ ہی نے سنبھا ل ر کھا ہے و گر نہ تو د شمن او ر د و ست نما دشمنو ں کی کمی نہیں محسن پاکستا ن ڈاکٹر عبد ا لقد یر خاں کے بقو ل کے متعد با ر ا یٹمی پر وگر ا م کو متعد با ر ر و ل بیک کر نے کی کو شش کی گیئں ۔فو ج میںمو جو د جذبہ حب ا لو طنی بھی قا بل ستا ئش ہے ۔ جب کے دشمن ا س طر ف بھی شر انگیزی کی سا ز ش میں مصر و ف ہیں۔ پاکستا ن میں تو ا نائی کا مصنو عی بحر ا ن پید ا کر ا یا گیا ہے بجلی ، گیس کی ا ذیت میں مبتلا قو م کیا ترقی کر ے گی ہما ری صنعتیں بند ہو ر ہی ہیں عو ا م کو ٢٤ گھنٹے بجلی کا ر اگ آلاپنے میں لگا دیا کے (بجلی) چلی گئی آگئی چلی گئی آگئی بے ر و ز گا ری میں ر و ز بر و ز ا ضا فہ ہو ر ہا ہے
د و د و ن لو گ لا ئن میں سی ا ین جی کا انتظا ر کر ر ہے ہیں ا غو ا قتل ، بھتہ ما فیا ، لینڈ ما فیا، لو ٹ ما ر ، ٹا ر گیٹ کلنگ، لسا نیت عصبیت ، ر شو ت ، جیسے جر ا ئم کو با قا ئد ہ سو چی سمجھی ا سکیم کے تحت سا ز شی عنا صر فر و غ دے ر ہے ہیں یہ سب گہنا و نی سا ز شیں ہیں ا و ر ا س کے انتہائی خظرناک نتا ئج بر آمد ہو نگے ا گر جلد ان پر قا بو نہ پا یا گیا تو! ہند و بنیو ں ا و ر بر طا نیوی سامر ا جیو ں نے تقسم کے وقت بھر پو ر سا ز ش کے تحت پاکستا ن کی تقسم کی تھی یہ بھی و ا ضح ر ہے کے پاکستا ن کی مو جو د ہ جغر ا فیا ئی صو با ئی تقسم ا نگر یز و ں کی بنا ئی ہو ئی ہے
ا نگر یز و ں کی بنا ئی ہو ئی اس تقسم سے آج ہم انتظا می ا و ر سیا سی بحر ا نو ں کا شکا ر ہیں ا س تقسِم کے با عث ہمیں مشر قی پا کستا ن سے ہا تھ د ھو نا پڑا لیکن عا قب نا اند یش ا تنا بڑ ا نقصا ن ا ٹھا نے کے با و جو د بھی ذا تی مفا د ا ت کے با عث آج بھی صو بو ں کی تشکیل نو نہیں ہو نے دیتے پاکستا ن کے تین صو بے ا س و قت ا نتہا ئی پر یشا ن کن حا لا ت سے گز ر ر ہے ہیں بلو چستا ن میں جو صو ر تحا ل ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں متعد با ر ا یسے شو ا ہد ملے ہیں سر حد ا و ر بلو چستا ن میں بلک و ا ٹر ا و ر ا سر ائیلی ا یجنٹ ا پنی کا ر ستا نیو ں میں مصر و ف عمل ہیں ا گر آج بھی غفلط ا و ر لا پر و ا ہی کا یہ سلسلہ ہنو ز جا ری ر ہا ا و ر تو ہم پھر حا د ثا ت کا شکا ر ہو سکتے ہیں ا مر یکی نیو و ر لڈ آرڈر کے تنا ظر میں ا و ر ا س کی پیش بندی کیلئے ضر و ر ی ہے
یہ کے ہمیں صو بو ں کی تشکیل نو کر لینی چا ہیے ا و ر بہتر ہو گا کے ڈو یژن کی سطح پر صو بے بناکر انتظامی ، سیا سی، معا شی و ا قتصا دی کنٹر و ل کو بہتر بنا یا جائے۔ا س سلسلے میں عر ض کر د و ں کے آج ہر محب و طن پاکستانی حیر ا ن و پر یشا ن ہے ا و ر یہ سو چنے پر مجبو ر ہے کے وطن عز یز میں آگ و خو ن کی ہو لی کیو کھیلی جا رہی ہے عصبیت ، نفر ت علیحد گی پسند عنا صر کو کیو نکر فر و غ ملل رہا ہے ۔ قو میت کے نعر و ں نے حب ا لو طنی کے جذ بے کو ثبو تا ثر کر نے کی کو شش کی ہے۔ پاکستا ہمیشہ سے سیا سی بحر ا ن کا شکا ر کیو ہے؟ د ر ا صل یہی و ہ و جو ہا ت ہیں جو ملک کی سا لمیت کے لئے خطر ہ بن سکتی ہیں ملک میں بے ر و ز گا ری کے سبب نو جو ا ن نسل کو ا نتہا پسند ی کی طر ف ما ئل کر یا ہے۔
پاکستا ن میں آج پھر و ہی حا لا ت پید ا کر دیئے گئے ہیں جو مشر قی پاکستا ن کو بنگلہ د یش بنا نے کے لئے کئے گئے تھے۔ پاکستا کی سیا سی ا و ر دستور ی تا ر یخ ا و ر ا س کے نشیب و فر ا ز میں صو با ئیت کا مسئلہ خا ص پیچیدگیو ں ا و ر دشو ا ر یو ں کا مو جب ر ہا ہے صو بو ں کی تعد ا د ان کے حقو ق و ا ختیا ر ا ت مر کز ا و ر صو بو ں کے با ہم تعلقا ت مختلف صو بو ں کی مر کز میں نما ئند گی و گیر ہ جیسے مسا ئل نہ صر ف د ستو ر سا زی میں ر و کا و ٹ بنتے ر ہے ہیں بلکہ مختلف ا و قا ت میں جو د ستو ر ی بحر ا ن پید ا ہو تے ر ہے ہیں ا و ر با لآخر پاکستا ن کے د و لخت ہو نے تک نو بت پہنچی ان کی تہہ میں بھی یہی عنصر سب سے ز یا د ہ کا ر فر ما رہے تھے
ا و ر تخریبی قو تو ں کو پاکستا ن کی سا لمیت و حد ت پر ضر ب لگا نے کے لئے ا نہی مسا ئل سے خا م مو ا د ملتا ر ہا ہے ان خطر ا ت کو محسو س کر تے ہوئے یہ ضر و ری ہے کہ با قا ئد ہ ڈ و یژن کی سطح پر صو بو ںکے قیا م کے لئے جد و جہد کی جائے۔ اگر ڈ و یژن کی سطح پر صو بے نہ بنا ئے گئے تو ملک کو خطر ہ لا حق ہو سکتا ہے ۔پاکستا نی عو ا م ا و ر حکمرنو ں کو اب ا س سنگین مسئلے سے قطعی چشم پو شی نہیں کر نی چا ہیے۔
پاکستا ن می ڈ و یژن کی سطح پر صو بو ں کے قیا م کیلئے ا ہل فکر طبقہ کو شا ں ہے ا و ر ا یک بڑی ا کثر یت ا س با ت پر متفق ہو چکی ہے کہ پاکستا ن کے بڑے بڑے صو بو ں میں امن عا مہ کا قی ا م مختلف و جو ہ سے نا ممکن ہو تا جا ر ہا ہے سیا سی ا و ر انتظا می ا ستحکا م کے لئے صو بو ں کو چھو ٹی ا کا ئیو ں میں تقسیم کر و قت کا ا یک تقا ضا بن چکا ہے ۔ ا س حو الہ سے بھی حقیقت پسند ا نہ حکمت عملی و ضع لینے سے و طن کو نت نئے خطر ا ت سے محفو ظ ر کھا جا سکتا ہے ۔ یہ با ت بلا خو ف تر د ید کہی جا سکتی ہے کہ د نیا کے کسی ملک خصو صاّ کسی و فا قی نظا م ر کھنے و ا لے ملک میں صو بے ا تنی کم تعد ا د میں نہیں جتنے ہما رے یہا ں ہیں یہ بھی حقیقت ہے
پاکستا ن کی صو با ئی تقسیم ا یک نو آبا د یا تی طا قت کے سیا سی ا و ر معا شی مصا لح کی مر ہو ن منت ہے جس میں عو ا م کی فلا ح و بہبو د کیلئے عمل میں نہیں لا ئی گی۔ہما رے یہا ں آ با دی ان کے ر قبے سے منا سبت نہیں ر کھتی ۔ صو بو ں کے ا س عد نو ا ز ن کو عو ا م محسو س کر تے ہیں۔ د یکھئے کہ بنگلہ دیش جو ما ضی میں ہما ر ا یک صو بہ تھا آج اس دیش کے ٢١ صو بے بنائے گئے ہیں ۔ دنیا بھر کے ملکو نے انتظا می کنٹر و ل کو بہتر ا و ر عو ا م کو ان کے در و ازے پر سہو لتیں بہم پہنچا نے کیلئے صو بو ںمیں خا ظر خو ا ہ ا ضا فہ کیا ہے ۔ پاکستا ن میں ڈ و یژن کی سطح پر صو بے بنائے جا نے کے بعدبھی یہ د و سرے متعد ملکو ں کے مقا بلے می د و گنی حثیت کے حا مل ہو گے ہما رے ا علٰی سر کار ی حکا کو چشم پو شی کی عا د ت کچھ ز یا د ہ ہی ہے
ہر بڑے مئسلے سے پہلو تہی کر تے ہیں ا گر ا س مسلے کی ا فا دیت ا و ر ا ہمیت کو سمجھ لیا جا ئے ت و ا من ا و ر خو شحا لی پید ا ہو گی ہر صو بے میں آسا نی سے ملا ز متیں میسر ہو گی عصبیت تعصب ا و ر علیحد گی پسند گی کا خا تمہ ہو گا نقل مکا نی کا ر جحا ن ختم ہو گا ہر صو بے کی پو لیس مقا می ا فر ا د پر مشتملل ہو گی ۔ ا سما ل انڈسٹر یز کو فر و غ حا صل ہو گا ۔ ہرل صو بے میں انجینرنگ، میڈ یکل کا لج ہو گے طلبہ و طا لبا ت کو حصو ل تعلیم و حصو ل ر و ز گا ر میں آسا نی ہو گی مز د و ر ی کے لئے گھر با ر نہیں چھو ڑنا پڑے گا یو ں مز د و ر و ں کا معیا ر ز ند گی بہتر ہو گا۔ انتظامی کنٹر و ل بہتر و آسا ن ہو گا۔ پسما ند ہ علا قو ں کو تر قی ملے گی ۔ تر قیاتی کا مو ں کی ر فتا ر تیز ہو تی ۔ یو ں ڈ و یژن کی سطح پر قا ئم ہو نے و ا لے چھو ٹے صو بے تر قی کر یں گے تو پو ر ا ملک ہی تر قی کرے گا۔
ان تما مقا صد کے حصو کے لئے لا زمی طو ر پر پاکستا ن کا انتظا می سیاسی ڈھا نچہ مند ر جہ ذیل تبد یل کر نا ہو گا ۔ ١۔ چا ر و ں صو بو کی جگہ پر ڈ و یژنو ں کو صو بو ں کا در جہ دیا جائے۔ ٢۔با لع ر ائے دہی کے ذر یعے ہر ڈ و یژن (صوبے) کا گو ر نر منتخب کیا جا ئے جو ا سی صو بے (ڈو یژن) کا با شند ہ ہو ا و ر ووٹ ڈ النے کا حق بھی اس شخص کو حا صل ہو جس کے پا س متعلقہ ڈ و یژن کا قو می شنا ختی کا ر ڈ ہو۔ ٣۔ پو لیس کا مو جو د ہ نظا م ختم کر کے ڈ و یژن (صو بے ) کی پو لیس قا ئم کی جا ئے ا و ر ایس ا یچ ا و کو کسی بھی علاقے میں آئی جی یا ڈی آئی جی متعین نہ کر یں بلکہ ہر علا قے کے لو گ ا یس ا یچ ا و کو وو ٹ کے ذر یعہ منتخب کر یں۔ ٤۔ مو جو دہ چا ر و ں ہا ئی کور ٹس کی جگہ ہر ڈ و یژن کی اپنی ہا ئی کو ر ٹ ہو ں۔ ٥۔ ہر ڈ و یژن میں ا یک محتسب کا تقر ر ہو۔
Provincial Assemblies
٦۔ ہر ڈ و یژن کی ا پنی منتخب صوبائی اسمبلیاں ہو ں جس کے ممبر و کی تعد اد آبا دی کے مطا بق ہوں۔ ٧۔ ہر ڈ و یژن یعنی صو بے کو ا تنی خو مختا ری ضر و ر دی جائے کہ عو ا م کے تما م مسا ئلل مثلاّ تعلیم، صحت ، عدل وانصا ف ، ٹر ا نپو ر ٹ، صنعت و تجا ر ت، سما جی تحفظ ، ز ر ا عت ، ا من عا مہ و غیر ہ جیسے مسا ئل صو بے ہی کی سطح پر حل ہو تے چلے جائیں۔ ٨قو می ا سمبلی کی تشکیل ہر ڈ و یژن (صو بے ) کی مسا و ی نما ئند گی سے عمل میں لا ئی جائے ا و ر قو می سطح پر قا ئم پیشہ و ر ا نہ تنظیمو ں کے نما ئند و ں کو بھی ا سمبلی میں نما ئندگی دی جائے۔
٩۔ صد ر مملک ا و ر گو ر نر کا انتخا ب ر ا ست وو ٹو ں کے ذر یع با لغ ر ا ئے دہی کی بنیا د پر عمل لا یا جائے ا و ر وہی اُمیدوا ر منتخب قر ا ر دیا جائے جس نے ڈالے گئے ووٹو ں کا کم از کم پچا س فیصد سے ز ا ئد حا صل کئے ہیں ۔ یہی طر یقہ سیا سی پا ر ٹیو ں کے لئے بھی ہو نا چاہیے۔ جب و ن یو نٹ قا ئم تھا اُس و قت ملک میں تر قیا تی کا مو ں کے سلسلے میں مشکلا ت میں اضا فہ ہی ہو ا تھا ا ور کسی بھی علا قے کے شخص کو ا یک مخصو ص مر کز کا ر خ کر نا پڑ تا تھا جہا ں تما م ترانتظا ما ت ا و ر عملے کی مو جو دگی کے با و جو د مسا ئل کے حل کی صو ر ت نہیں نکلتی تھی بلکہ مز ید ا فر ا تفری ہی د یکھنے میں آتی تھی ا س کے بعد جب صو بو ں کو خو د مختا ر ی دی گئی ا و ر صو بو ں کے صدر مقا ما ت پر ا نتظا می ا و ر تر قیا تی کا مو ں کی ا نجا م دیہی کا بند و بست کیا گیا۔ تو نہ صرف عا م لو گو ں کے مسا ئل جلد ا ور تر جیحی بنیا د و ں پر حل ہو سکے بلکہ لو گو ں کو نو کر شا ہی کے تسلط سے بھی نجا ت ملی ا و ر د و سر ی طر ف مخصو س علاقو ں کے لئے مختص رقو م سے ان علا قو ں میں تر قیاتی کا موں کے ثمر ا ت بھی نظر آ ئے بھی نظر آئے اب جبکہ ملک کی صو ر ت حا ل پہلے سے زیا د ہ گھبیر ہو گئی ہے مسا ئل میں حد در جہ ا ضا فہ ہو ر ہا ہے تو ڈ و یژن کی سطح پر صو بو ں کے قیا م کی ا فا دیت ا و ر ا ہمیت سے کس طر ح انکا ر کیا جا سکتا ہے۔ ہم ا گر اپنی معا شر تی ز ند گی کے مختلف پہلو ں پر نظر ڈ الیں تو ہمیں بہت سی مثالیں ملیں گی
جس کے تحت مسا ئل کو ا چھے اند ا ز میں حل کر نے کے امکا نا ت ر و شن نظر آتے ہیں ۔ مثلاّ ملک کی بڑی و حد ت میں بڑے شہر پھر چھوٹے شہر پھر گا ؤں دیہا ت پھر علا قے محلے گلی کو چے ا و ر گھر کی سطح پر مسا ئل کا عمو می جا ئز ہ لیا جا ئے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ملک ہر بر س ا گلے پنج سا لہ منصو بے کے سپر د کر دئے جا تے ہیں۔ کیو نکہ اس کے با رے میں کو ئی نہ کو ئی عذر پیش کیا جا تا ہے جبکہ انفر ا دی گھر انو ں کا جا ئز ہ لیا جائے تو ان کے مسا ئل مقا بلتاّّ جلد ا ور زیا دہ حل ہوتے نظر آتے ہیں اس مثا ل کو ا س طر ح بھی سمجھ لیںجیسے آپ کے سا منے ناظم یا کو نسلر کا حلقہ یا ا یک بچہ جو ا سکو ل میں چالیس بچو ں کلا س میں بہتر تعلیم حا صل نہیں کر سکتا و ہ گھر کے آر ام دہ ا و ر مختصر ما حو ل میں ٹیو ٹر سے ز یا دہ بہتر پڑھتا ہے اسی طر ح مختصر علا قے کو محد و د و سا ئل سے بھی ا چھی منصو بہ بندی سے پہتر بنا یا جا سکتا ہے۔ صو بو کی تعد ا د می اضا فے کی ا فا دیت و ضر ورت سے کو ئی معقو لیت پسند انسا ن اس سے انکا ر ا س لئے نہیں کر سکتا کہ صو بائیت کے مسئلے نے ملک میں عصبیت کو غیر معمو لی فر و غ دے کر گو نا گو ں مسا ئل و مشکلا ت پید ا کر دئے ہیں جس کے صیح منا سب ا و ر معقو ل حل پر د و سر ی بہت سی مشکلا ت کے حل کا بڑی حد تک د ا ر و مد ار ہے ا س لعنت کی و جہ سے ملک کے مختلف حصو ں کے ما بین مخاصمت بے ا عتما دی عد تعا و ن ا ور عد م یک جہتی کے ر جحا نا ت خر نا ک حد تک بڑتے جا ر ہے ہیں صو بو ںکی نا ہمو اری کے با عث چھو ٹے صو بو ں میں اپنی مغلو بیت یا بے ا ثر ی کا صیح یا غلط ا حسا س نما یا تر ہو ر ہا ہے
اند ر و نی و بیر ونی تخر یبی قو تو ں کی طر ف سے اس کو خو ب ہو دی جا ر ہی ہے تا کہ علیحد گی پسند کے ر جحا نا ت کو تقو یت پہنچھ ا و ر پاکستا ن کی رہی سہی سا لمیت کو تہس نہس کیا جا سکے وطن عز یز میں اب ہر طر ف قو م پر ستی کے علم بلند کئے جا رہے ہیں جو یقیناّ تبا ہی کا ر ا ستہ ہے ڈ و یژن کی سطح پر بنا ئے جا نے و ا لے صو بے قو میتو ں کے نا م نہیں ہو نے چا ہیں ہمیں ملی و حد ت کو ہر قیمت پر بر قر ا ر ر کھنا ا ور ا س کے لئے ضر و ر ی ہے کہ ڈ و یژن کی سطح پر صو بے ہو ں (٢) قو می تشخص کو اُجاگر کیا جا ئے۔
(٣) اردو ز با ن کو پاکستا ن کی قو می ز با ن کا عملی در جہ دیا جائے ۔ کیو نکہ اس ز با ن میں پاکستا ن میں بو لی جا نے وا لی تمام بڑی ز با نو ں کے ا لفا ظ شا مل ہیں لہذ ا یہ و ا حد پاکستا نی ز با ن ہے نہ ہی ا س پر کسی قو م یا علا قے کا کسی قسیم کا تسلط ہے۔ اس مسلمہ حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے ا و ر دنیا کے مختلف مما لک طو یل تجر بے کے بعد ا س نتیجے پر پہنچے ہیں کے ا یک و فا قی طر ز حکو مت کی کا میابی کی بنیا دی ا و ر لاز می شرط یہ ہے کہ و فا قی ا کا ئیا ں چھو ٹی ہو ا و ر ا پنی صلا ھیتو ں کو بر و ئے کا لانے ا و ر اپنے لا ز می مسا ئل حل کر نے کے لئے ان کے با شند و ں کو خا طر خو ا ہ اختیا ر ا ت مو قع ا و ر سہو لتیں حا صل ہو ں ۔ مو جو دہ سیا سی ڈ ھا نچے کو تبد یل کر عین متقضا ئے مصلحت ہے ا و ر ا سلا می نقطہ نظر سے نہا یت مستحسن و مطلو ب ہے یہ ا قد ا م ایسے فتنے کے ازا لے کی ر ا ہ ہمو ا ر کر دے گا جو مملکت ا سلا می کی بقا ء کے لئے ر و ز ا فز و ں خطر ے کی صو ر ت ا ختیا ر کر تا جا ر ہا ہے۔
حد یث شر یف میں ہے کہ ر سو ل ا للہ ۖ سے پو چھا گیا کے کیا د و سر و ں کے مقا بلے میں اپنی قو م کے لو گو ں سے نسبتاّ ز یا د ہ محبت کر نا عصبیت ہے تو آ پ ۖ نے ا ر شا د فر ما یا نہیں عصبیت یہ ہے کے ا پنی قو م سے محبت کی خا طر د و سر و ں سے نفر ت کی جا ئے۔ بخا ر شر یف کی ا یک حد یث کے مطا بق آپ ۖ نے شہر و ں کو چھو ٹا ر کھنے کا بھی حکم دیا ہے ا س حد یث کی ر و شنی میں حکمت تما یا ہے ضر و ر ت صر ف غو ر و فکر کی ہے ہما رے خیا ل میں ا س کا و ا حد طر یقہ صو بو ں کی تشکیل نو ہے جنرل نیا زی نے جنگ کے د و ر ا ن اظہا ر تا سف کر تے ہوئے کہا تھا کے کا ش مشر قی پاکستا ن ز یا د ہ صو بو ں میں تقسیم کر دیا گیا ہو تا تو پاکستا ن د و لخت نہ ہو تا ۔ ا س با ت سے آپبھی و ا قف ہیں کہ ہند و ستا ن ا س لئے تقسیم ہو ا کہ نو آبا دیاتی ہند و ستا ن میں مستقل ا قلیت ا و ر ا کثر یت کے ما بین پید ہو نے و ا لے تضا د ات کو حل نہ کیا جا سکا۔ ا و ر پاکستا ن کی تقسیم کی و جہ بھی یہی ہے کہ مشر قی پاکستا ن کی مستقل ا اکثر یت ا و ر مغر بی پاکستا ن کی مستقل ا قلیت کے در میا ن تضا د ا ت کا صیح حل تلا ش نہ ہو سکا ون یو نٹ ا و ر ا و ر پیر یٹی کے مصنو عی طر یقے د یر پانہ تھے ۔ یہا ں یہ با ت بھی و ا ضح کر دینا ضر و ر ی ہے کہ ڈ و یژنو کی تعد ا د 1973 ء کے آئین کے مطا بق جو دی گئی ہے
وہ ہی در ست ہے منا سب خو د مختا ر ی کو مد نظر ر کھتے ہو ئے ا گر صو بو ں کی تشکیل نو کی جا ئے تو بہت سے مسا ئل حل ہو جا ئینگے ا و ر یہ قد م بڑے مثبت ا و ر دو ر س نتا ئج کا حا مل ہو گا نئے صو بو کا نظا م انتظا می طور پر قا بل عمل ہو نے کے علا و ہ نو کر شا ہی کا ز و ر تو ڑ دیگا ۔منتخب نما ئند ے منتخب منتخب محکمو ں کا بر ا ہ ر ا ست انظا م سنبھال کر ا یک طر ف عو ا م کی پہتر خد مت کر یں گے د و سر ی طر ف سیا ستد انو ں کی پر ا عتما دی میں ا ضا فہ ہو گا پھر یہ کے نئے صو بو ں کے و جو د میں آ جا نے سے مو جو د ہ صو بو ں کے نا مو ں پر پیلا ئی گئی صو بائی لسا نی نسلی ا نتہا پسند عصبتیں دم تو ڑ دینگی ظا ہر ہے نئے شہر آبا د ہو ئینگے جن کی و جہ سے مو جو دہ شہر و ں پر د با ؤکم ہوگا۔
چھو ٹے صو بے بنا کر ان کو کو تر غیب دی جا ئے کہ وہ خو کفیل ہو ں ۔ اپنے علا قے کی تر قی ا و ر عو ا م بہتر و خو شحا لی نیز شہر و ں کی منا سب منصو بہ بند ی کر یں جن میں صنعتی علا قے قا ئم کئے جا ئیں عو ا م کی فلا ح و بہبو د کیلئے مو ثر طر یقہ صر ف صو بو ں کی تشکیل نو ہے نئے صو بو ں کو لسا نی نہیں انتظا می بنیا د پر منظم کر نا ہو گا ۔ پاکستا ن کے قیا م کی تا ر یخ قد یم نہیں لیکن ا س مختصر عر صے میں ہم نے د یکھا کہ بڑے بڑے سا نحے ر و نما ہو ئے ا و ر بہت بڑے بڑے مسا ئل سے د و ضا ر ہو نا پڑا ہے بے ا عتد ا لیا ں بھی ہیں ۔ حب ا لو طنی کے عملی جذبا ت سے عا ری بھی لو گ ہیں حکمت عملی سے خا لی بھی ہیں اب حا ل یہ ہے کہ ہر با ت کو ذا تی علا قا ئی لسا نی سیا سی و صو با ئی مفا د ا ت کی عینکیں لگا کر دیکھا جا تا ہے جبکہ کسی بھی مسلے کو ا س و قت تک حل نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ ا س کے پس منظر سے مکمل آگہی نہ ہو ا سکی ا فا دیت و ا ہمیت کا علم نہ ہو ا و ر حقا ئق کو تسلیم کر کے عد و انصا ف کے سا تھ جرآت سے عملد رآمد نہ ہو ملک و قو م ا و ر آئند ہ آنے و ا لی نسلو ں کے مستقبل کو تحفظ دینیل کیلئے ا و ر ا نھیں ایک مظبوط پاکستا ن دینا ہو گا جس میں کو ئی نقیب نہ لگا سکے ا و ر و طن عز یز کی تعمیر نو کیلئے ا ستحکا م کیلئے سا زشی ر یشہ د و ا نیو ں کے انسد اد کیلئے ہمیں مصلحت، مفا د ا ت کو با لائے طا ق ر کھ کر پاکستا ن کی بقا کیلئے صو بو ں کی تشکیل نو کر نی ہو گی اور و ہ ڈ و یژن کی سطح پر کی جانی ہو گی مو جو د صو ر تحا ل میں یہ امر ناگزیر ہو چکا ہے بہر حا ل یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس کے بغیر اب کو ئی چا ر ہ نہیں جو لو گ اسکی مخا لفت کر رہے ہیں و یقینا ا س فلسفے کا یا ا یک بہتر تر ین فا ر مو لے کا علم و ا در ا ک نہیں ر کھتے یا بہ صو ر ت دیگر کو ئی نہ کو ئی مفا د کا ر فر ما ضر و ر ہے و ر نہ کیا وجہ ہے ملک کے مقتد ر د انشو ر و ں با ضمیر سیا ستد ا نو ں ٹیکنو کریٹس نے حکمر انو ں کی تو جہ بار بار ا س جا نب مبذو ل کرا ئی ہے کہ ڈو یژن کی سطح پر صو بو کا قیا م عمل میں لانے کی صو ر ت میں ہم اند ر و نی ا و ر بیر و نی سا زشو ں سے نبر د آزما ہو سکتے ہیں ۔
د انشور و ں کی تجا و یز فکر انگیز تحر ا و ر انکے رشحا ت قلم ملک و قو م کے لئے نہ صر ف سر ما یہ ہے بلکہ مشعل ر اہ بھی ظفر ا حمد انصا ر ی کمیشن ر پو ر ٹ نے ا س تحر یک کو مز ید جِلا بخشی ۔ لیکن مجھے محتر م ظفر ا حمد ا نصاری کی دو با تیں ہمیشہ یاد ر ہیں گئی ا یک تو یہ کہ مجلس شو ر یٰ کے اجلا س میں کمیشن کی ر پو ر ٹ پیش کر تے ہوئے کہی کے یہ ر پو ر ٹ سر خ فیتے کی نظر ہو جائے گی ا و ر ہو بھی ا یسا ہی ۔ د و سر ی ا س و قت جب میں انکی د ورا ن علا لت عیاد ت کیلئے گیا تھاتو انھو ں نے مجھ سے مخا طب ہو کر کہا تھا کہ تم یہ تحر یک چلا تو ر ہے ہو مگر اس میں تمہیں بہت سی مشکلا ت سے بھی گز رنا پڑے گا لو گو ں کا ا س فا ر مو لے کو سمجھنا بہت مشکل ہے مگر نا ممکن نہیں میرے استفسار پر انھو ں نے کہا ا و ر اگر سمجھ لیا تو ا س ملک کی تقد یر بد ل جائے گی کیو نکہ یہ ا یک خا لصتاّ ملک و قومی کے مفا د میں ہے اس لیئے کسی قسیم کی کہیں سے کو ئی سپو رٹ نہیں ملے گی بر عکس سخت مظاہمت کا سا منا کر نا پڑجائیگا۔ تمھار ی جد و جہد در ست سمت میں ہے مگر لو گ فو ر ی نو عیت کے مفا د ا ت کو تر جیح دیتے ہیں ا و ر ایسی پار ٹیو ں پر سر ما یہ کا ری کر تے ہیں جن سے مفا د ا ت و ا بستہ ہو ں آپکی اس تحر یک سے انفر ا دی مفا د ا ت ر کھنے و الے تعا و ن نہیں کر ینگے۔ جبکہ اس کا م کیلئے عو ا می ر ائے عا مہ کو ہمو ا ر کر نے یا اسکی افا دیت و ا ہمیت سے آگا ہ کر نے کے لئے بڑے پیما نے پر تشہری مہم کی ضر و ر ت ہے
جبکہ آپ کے پا س ا یسے و سا ئل بھی میسر نہیں لیکن آپ کی جد و جہد ر ا ئیگا ں نہیں جائے گی ا و ر ا یک و قت آئیگا کے قو م ا س کی حقیقت سمجھ آئے گی یہی و ہ فا ر مو لا یا طر یقہ ہے جس کو اپنا نے سے ہم نہ صرف ملک کو اند ر و نی و بیر ونی سا زشو ں ا و ر انتظامی و سیا سی بحر ا ن پر قا بو ہی نہیں پاسکتے بلکہ اس ملک کو تر قی کی ر اہ پر گا مزن کر سکتے ہیںا و ر یہی وہ طر یقہ ہے جو پاکستان کے بہتر مستقبل کی ضما نت دیتا ہے اس کا م میں و ہی لو گ شا مل ہو سکتے ہیں جو صلا و ستا ئش سے ما و را ہو ں حب الو طنی کے جذبے سے سر شا ر ہو ں مخا لفت کیلئے تیا ر ہو ں مو لا نا صا حب کی گفتگو نے میرے عزم کو مزید تقو یت دی مو لا نا انصاری صا حب کچھ دنو ں بعد اپنے خلق حقیقی سے جا ملے مگر انکے وہ چند جملے حقیقت میں حرف بہ حرف سا منے بھی آر ہے ہیں مگر پھر بھی ثابت قد می سے مید ا نِ عمل میں کھڑا ہو ں کے مجھے وطن ا و ر آنے و الی نسل کا مستقبل عزیز ہے
یہ میر ا و طن ہے اسکو بچا نا ا و ر بنانا میر ا بھی فر ض ہے ملک کی تعمیر و تر قی ا و ر ا س کی بقاء کیلئے کا م کر نا ہم پر قر ض ہے جو ہر حا ل میں ادا کر نا ہے۔ 1982 ء سے آہستہ آہستہ ا س سلسلے میں کا م ہو ر ہا ہے اخبا ر ات میں مضا مین کی شکل میں پمفلٹ چھو ٹے مو ٹے پر و گرامو ں آگہی نشیستوںکے ذر یعہ مگر یہ جد و جہد ر ا ئیگا ں نہیں گئی آ ج ا س با ت کو ا یک بڑی ا کثریت سمجھنے لگی ہے ا و ر ا س کا م ا بتد ا بھی ہو گئی ہے شکل گو کے مختلف ہے لیکن ہم یہ کہے سکتے ہیں کے شر و عا ت ہو ئی ہے کیو نکہ اس زمانہ تھا لو گ اس با ت کا مذاق ا ڑاتے تھے یا حیرت سے شکل د یکھتے تھے مگر آج حکو مت نے گلگت صو بہ بنایا ملتا ن صو بے، ہزا رہ صو بے ،بہا و لپو ر صو بے، کر اچی صو بے ،پو ٹو ھا ر صو بے ،کی با ت ہو ر ہی ہے ۔جو کے صوبے بناو تحریک کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ا و ر انشاء اللہ وہ وقت د و ر نہیں کے جب ہر ڈ و یژن کے عو ا م از خو د ا پنے صو بو ں کے حو الے سے اُٹھ کھڑے ہونگے ۔عو ام ا و ر حکمر انو ں سے گز ا ر ش یہ ہے کے صو بو ں کی تقسیم کا عمل لسا نی ا و ر سیا سی مفا د ات سے بالا تر ہو۔صوبوں کے قیام کیلئے آواز بلند کریں ۔و ر نہ ہم ا پنے ا صل حد ف تک نہیں پہنچ پائینگے ۔عصبیت و لسانیت کی بنیاد پر صوبوں کیلئے بات کرنے سے قومی وحدت کو نقصان پہنچے گا بیرونی سازشی عناصر سازشی کاروائیاں کرئینگے ہمیں بہر حال ملک کی سلامتی اور قومی یکجہتی ہر صورت میں مقدم ہے
٢٣ ڈو یژنو ں کو صو بو ں کا در جہ دیا جانے سے لوگ ٹی وی چینلز پر یہ سوال اٹھار ہے ہیں کے اس اخراجات بڑھ جائینگے ان کی خدمت میں عرض ہے کہ پہلی بات یہ کے اخراجات کو کنٹرول کیا جائے اس کی ایک حد مقر کی جائے ہمارے غریب ملک کے گورنر اور وزرا اعلیٰ بشمول وزیر صاحبان اپنے عہدوں پر اس طرح براجمع ہوتے ہیں کے یہ خدمت کیلئے نہیں بلکہ بادشاہ بن گئے ہیں اور ایسی ہی شاہ خرچیاں کی جاتی ہیں جن کا ترقی یافتہ ممالک میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے یہاں وزیر آعظم کے کیچن کا خرچ تین کروڑ سے زائید ہے ۔ ا س کے مقابلے میں ا س و قت ١٠٠ سے ز یا دہ کی و ز ر ا کی فو ج ظفر مو ج ہے ا س کے علا و ہ شا ہ خر چیاں کا تو کو ئی حسا ب ہی نہیںان کو کم کیا جانا ہو گا ا و ر اگر پھر بھی ا س کا م میں کچھ خر چ بڑھ بھی جائے تو یہ سو دا ملک کی سا لمیت ا و ر عو ا م کی بہبو د سے بڑھ کر نہیں صو بے از خو د بھی اپنے فنڈز جنریٹ کر نے کی صلا حیت ر کھتے ہیں۔
Pakistan
دوسرا سوال یہ بھی اٹھایا جارہا ہے کے ٤ صوبے تو سنبھالے نہیں جارہے تو ٢٣ صوبے کیسے سنبھالیں گئے ان کی خدمت میں عرض ہے کے انتظامی کنٹرول کو ہی بہتر بنانے کیلئے زیادہ صوبے بنائے جاتے ہیں اور دنیا بھر میں یہی طریقہ رائج ہے پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے سب سے کم صوبے ہیںآپ ناظم یا کونسلر اسی لیئے بناتے ہیں کے چھوٹے چھوٹے علاقوں کے مسائل کو حل نچلی سطح پر کیا جائے اور بڑے مسائل کو چھوٹے صوبے بناکر ۔۔۔۔