تحریر : کہکشاں صابر اللہ کا کرم ہے کہ اس نے ھم کو چار موسموں سے نوازا ہیں یہ چاروں موسم ہی اپنے اندر ایک خوبصورتی اور دلکش انداز رکھتے ہیں لیکن سردیو ں کی سرد ہوائیں اور دھند جہاں کچھ لوگوں کے لئے زندگی اور انجوئمینٹ کا نام ہے وہی کچھ لوگوں کے لئے یہ موسم بے سکونی اور تکلیف کا باعث بھی ہے( مطلب کچھ فائدے بھی اور کچھ نقصاں بھی) دمے کے مریضوں کے لیے سردیوں کے شروع اور آخر کے دن بہت تکلیف کا باعث ھوتے ہیں خاص طور پہ دھند کے چند ایام۔۔۔۔۔۔۔ قدرت نے ہر موسم کی اپنی افادیت رکھی ہے ، مخلوق خدا ان موسموں سے لطف اندوز بھی ہوتی ہے مگر موسم کی تبدیلی انسانوں کے مزاج کے علاوہ ان کی صحت پر بھی اثرانداز ہوتی ہے اور وہی انسان موسم کی تبدیلی کی شدت کی لپیٹ میں آتے ہیں جن میں موسمی وائرس اور بیکٹریا کے خلاف مزاحمت کرنے کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے موسم سرد ہونے پر لوگوں کے کھانے پینے اور پہننے کے معمولات میں چھوٹی بڑی کئی تبدیلیاں آجاتی ہیں۔ ویسے ہی، کچھ بیماریاں بھی لوگوں کو سردیوں میں زیادہ تنگ کر سکتی ہیں۔
سردی کی شدت بڑھتے ہی سانس، سینے ،دمہ اور جلد کے امراض میں اضافہ ہو جاتا ہے گھر کے چھوٹوں بڑوں سب کے لیے کئی طرح کی پریشانی کا باعث بنتی ہیں خصو ¿صا دمہ کے مریضوں کے لیے۔۔۔۔۔ ایک دائمی بیماری کے ساتھ جینا کوئی مذاق نہیں ہے۔۔عام طور پر دائمی بیماریوں کے بارے میں جب بھی بات چیت ہوتی ھے، تو ان کی علامات اور علاج کے بارے میں ہوتی ہے۔
دمہ کیا ہے۔۔۔ دَمہ(استھما Asthama & COPD،)یونانی لفظ ازما”AZMA” سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں ”سانس کا پھولنا”۔ چونکہ دمہ میں مبتلا مریض کی سانس پھولتی ہے اور وہ ہانپنے لگتاہے اسلیے اس بیماری کو استھما کا نام دیا گیا ہے۔ دمہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں مریض پورے طبعی طریقے سے سانس لینے میں دشواری محسوس کرتاھے اور کھانسے لگتاہے جس کی وجہ ہوا کی نالیوں کا سکڑ کرتنگ ہوجاناہے سانس کی نالیوں سے ایک خاص قسم کی آواز ”ویز”نکلتی ہے اور مریض کو سانس لینے میں تکلیف اوردشواری محسوس ہوتی ہے چھاتی پر دباو ¿ محسوس ہوتاہے اور دمہ کا حملہ شروع ہوتے ہی مریض بے قراری کی حالت میں ہانپنے لگتاہے ، اس کے چہرے سے پریشانی کے آثار ٹپکنے لگتے ہیں اور وہ تازہ ہوا (آکسیجن)کی تلاش میں ہاتھ پیر مارتے ہوئے دکھائی دیتاہے۔ چند ثانیوں بعد مریض ایک ”خصوصی پوزیشن ” اختیار کرلیتاہے جس سے اسے قدرے راحت ملتی ہے اس دوران دوائیوں کا استعمال کرنے سے وہ تھوڑی دیر بعد پھر سے نارمل دکھائی دیتاہے۔ دمہ کا حملہ کسی وجہ سے کسی بھی وقت ہوسکتاہے۔ ہر وقت مناسب علاج ملنے سے مریض کو فوری راحت ملتی ہے لیکن کبھی کبھی مریض پے درپے حملوں کا شکار ہوتاہے۔ اسے سٹیٹس استھمیٹکس کہتے ہیں۔ یہ ایک میڈیکل ایمرجنسی ہے جس کا علاج ماہرین ہسپتال میں کرتے ہے ورنہ یہ حالت جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے دمہ کے خاتمے کے لیے کوئی مخصوص علاج نہیں ہے مگر اسے مزید بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔جسمانی جانچ اور میڈیکل ٹیسٹ کے ذریعے سے استھما کی پہچا ن ہوتی ہے۔خون کی جانچ،ایکسرے،خون میں آکسیجن کے مقدار کی جانچ،پھیپھڑوں کی حرکت کی جانچ،اسپائرومیٹری اور الرجی ٹیسٹ کے ذریعے دمہ کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔
دمہ کی روک تھام دو طریقوں سے کی جاسکتی ھے۔ایک علاج اور دوسرے تدبیر۔۔۔۔٭ تدبیر یہ ہے کہ مریض کو اپنے روزمرہ کے معمولات تبدیل کرنا ہوں گے 1998?سے ہر سال مئی کے پہلے منگل کو پوری دنیامیں Global Initiative For Asthama کی جانب سے استھما ڈے منایا جاتا ہے۔پوری دنیا میں اس دن مختلف کمپنیاں،سینٹرس اور سماجی فلاح وبہبود کے ادارے عوام میں دمہ کے متعلق ضروری باتیں لیکچرز،پمفلٹ ،کانفرسوں اور سمیناروں کے ذریعے پیش کرتی ہیں تاکہ عوام وخواص میں اس مرض کے متعلق بیداری پیدا ہواور ہر کوئی اس سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کریں۔
Asthma
عام بیماری۔۔۔٭ دمہ ایک عام بیماری ہے جو کسی بھی عمر میں لاحق ہوسکتی ہے۔ کل آبادی میں دس سے بارہ فیصد بچے اور پانچ سے سات فیصد بڑے اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں یہ بیماری کسی بھی عمر میں انسان پر حملہ کرسکتی ہے۔ تاہم ماہرینِ صحّت اسے تین خانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک Atopic Asthma ہے، جس کا سبب الرجی ہے۔ دوسری Non Atopic Asthma ہے، جس کا خطرہ نوعمری میں زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ غذا یا کسی دوائی کا ری ایکشن بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد بچپن سے بڑھاپے تک رہنے والی شکایت ہے، جسے ہم مستقل دمہ کہتے ہیں۔ اس میں مریض پھیپھڑوں کے انفیکشن کا شکار بھی ہوسکتا ہے مختلف تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ یہ بیماری زیادہ تر بچوں اور (سن بلوعت سے قبل)نوجوانوں کو اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ بچوں میں یہ بیماری یا تو ایک مستقل بیماری کا روپ دھارلیتی ہے یا سن بلوغت کے بعد خود بخود غائب ہوجاتی ہے۔
ایک اور تحقیق کے مطابق ثابت کیا جاچکاہے کہ ا گرچہ یہ بیماری عمر کے کسی بھی موڑپر گھیرلیتی ہے مگر پچاس فیصد افراد عمر کے دسویں سال سے پہلے ہی اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جہاں تک بالغ افراد کا تعلق ھے مرد وزن یکساں طور متاثر ہوتے ہیں مگر بچوں میں لڑکوں ،لڑکیوں کا تناسب 1۔2ہے یعنی لڑکوں میں یہ بیماری زیادہ پائی جاتی ہے۔اس کی عام علامات میں سانس لینے میں دشواری، عملِ تنفس کے دوران حلق سے مخصوص ا?وازیں نکلنا، سانس پھولنا اور کھانسی شامل ہیں اور یہ تمام تکالیف رات کے وقت شدید ہو جاتی ہیں۔ دمے کی شدت کی صورت میں سانس کی نالیاں بہت زیادہ سکڑ جاتی ہیں۔ اس کی وجہ ان ہوا دار نالیوں کے گرد موجود پٹھوں کا سخت ہو جانا ہے۔ اس صورت میں مریض سانس لینے میں شدید دشواری محسوس کرتا ہے، جب کہ مسلسل کھانسی سے اس کی زندگی تکلیف دہ ہو جاتی ہے اور معمولات پر اس کا برا اثر پڑتا ہے۔ خاص طور پر رات کے وقت دمے کے مریض کو شدید کھانسی ہوتی ہے اور وہ بھرپور نیند سے محروم رہتا ہے۔
دمے کی اقسام۔۔۔۔٭ دمہ خارجی ، ظاہری یا حساسیتی Atopic Asthma زیادہ عام ہے جو عام طورپر بچپن میں ہی شروع ہو تاہے اس قسم کے دمہ میں مبتلا بچے اور ان کے قریبی رشتہ دار کسی خاص قسم کی حساسیت (الرجی) کے شکار ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کو وقتاً فوقتاً مختلف چیزوں کیساتھ الرجی ہوتی ہے۔ جو خاص محرکات خارجی ان کے اندر حساسیت پیدا کرتے ہیں ان میں زرِ گل (پھولوں کا ریزہ)گھروں کے اندر اٹھنے والے گرد وغبار میں باریک کیڑے مکوڑے ، جانوروں کی گندگی ، تکیوں اور کمبلوں میں بھرے ہوئے جانور وں کے پر ، مختلف قسم کی غذائیں اور کچھ کیمیائی مادے قابل ذکر ہیں۔ یہ چیزیں یا ان کی بوسانس لیتے وقت پھیپھڑوں میں چلی جاتی ہیں اور حساسیت پیدا ہوجاتی ہے جس سے دمہ کا حملہ شروع ہوتاہے دمہ باطنی ، داخلی یا غیر حساسیتی Non Atopic Asthma دمہ کی یہ قسم سن بلوغت کے بعد شروع ہوتی ہے اس میں فرد نہ تو خود کسی حساسیت کا شکار ہوتاہے اور نہ ہی اس کا کوئی قریبی رشتہ کسی خاص حساسیت کا شکار ہوتا ہے۔
ان افراد میں دمہ کا حملہ کسی وائرسی انفکشن کے بعد شروع ہوتاہے۔ ان افراد میں قابل ذکر محرکات خارجی نہیں ہوتے ہیں لیکن دس فیصد مریض دوائیوں کے لئے حساس بن جاتے ہیں جن میں اسپرین قابل ذکر ہے یعنی اگر یہ لوگ اسپرین استعمال کریں تو ان پر دمہ کا حملہ ہوسکتاہے۔ یہ دمہ کی ایک اور قسم بھی ہے جو کچھ خاص دوائیاں استعمال کرنے سے شروع ہوتاہے اس کے علاوہ ایک اور قسم کا دمہ ہے جسے مخلوط قسم کہتے ہیں۔ جس میں مریض نہ اولین اور نہ دوئمی قسم میں فٹ ہوتا ہے۔
الرجی یا حساسیت انسانی جسم کے کسی بھی حصہ کا غیر معمولی رد عمل ہے جو کسی بیرونی حالت کی وجہ سے واقع ہوتاہے جبکہ دمہ نتیجہ ہے الرجی کا جس کا تعلق سانس کی نالیوں سے ہے۔دمہ جہاں سانس کی نالی اور پھیپھڑوں سے تعلق رکھتاھے الرجی جسم کے کسی بھی حصہ کا عکس ہو سکتا ہے۔طریقہ علاج۔۔۔۔٭ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ مختلف احتیاطوں سے اس تکلیف میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر اس مسئلے کا شکار افراد کے پھیپھڑوں کی صحت برقرار رکھنے اور دمے کو بگڑنے سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دمے کے علاج میں ادویہ کے ذریعے ہوا کی نالیوں کو نارمل رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ ایسی ادویہ کو ہوا کی نالیوں اور پھیپھڑوں تک پہنچانے کے لیے انہیلر اور نیبولائزر کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔ انہیلر کو ڈاکٹر دمے کے حملے کی صورت میں فوری کارگر اور مو?ثر طریقہ مانتے ہیں اس کے ذریعے سانس کی نالیوں میں داخل ہونے والی دوا کی کم مقدار سے بھی زیادہ ا?رام پہنچتا ھے۔ تاہم بہت سے مریض اس کا درست استعمال نہیں کرتے اور انہیلر کے ذریعے لی جانے والی دوا کے مو?ثر نتائج سے محروم رہتے ہیں۔ مریض کو چاہیے کہ وہ اپنے ڈاکٹر سے انہیلر کا درست استعمال سیکھےجو دوائیاں مریض کے لئے تجویز کی جائیں ان پر سختی سے عمل کرنا ضروری ہے اور کبھی بھی کسی بھی صورت میں دوائیوں کی تعداد نہ از خود کم کرے نہ زیادہ اور تب تک دوائیوں کا استعمال جاری کیا جائے جب تک ڈاکٹر ہدایت دے کوئی بھی دوائی ڈاکٹری مشورہ کے بغیر استعمال نہ کرے اس کے ساتھ دمے کے مریض کو سانس کی نالیوں سے بلغم نکالنے والی اور اینٹی الرجی ادویات بھی دی جاتی ہیں۔
ہر مرض کی طرح دمے کے شکار افراد کو بھی غذا میں پرہیز کرنا پڑتا ھے۔ اس کے ساتھ چند احتیاطی تدابیر اپنانا بھی ضروری ہیں۔ اس مسئلے میں گرفتار افراد کو گھر سے باہر ماسک استعمال کرنا چاہیے بچوں کے اسپتال میں کام کرنے والے ماہرین امراضِ اطفال کی متفقہ رائے ہے کہ جو بچے کسی خاص قسم کی الرجی کے شکار ہوں اور دمہ کے مرض میں مبتلا ہوں ان کے لئے سردیوں کے موسم میں احتیاط برتنا لازمی ہے۔موسم سرما کے آغاز میں درجہ حرارت میں تغیر ہونے کی وجہ سے بچوں میں دمہ کے حملوں میں اضافہ ہوتاہے۔ ان بچوں کو سردی کے موسم میں (خاص کر صبح و شام کے وقت)گھر سے باہر جانے کی اجازت نہ دی جانی چاہئے اور نہ سڑکوں اور باغوں میں کرکٹ یا کوئی اور کھیل کھیلنے کے لئے اجازت دی جائے۔
Foggy and Cold Weather
ان بچوں کو فضائی آلودگی ، دھوئیں ، بو، آلودہ غذاو ¿ں اور کیڑے مکوڑوں سے دور رکھنا چاہئے ، ایسے بچوں کو کانگڑی کا استعمال نہ کرنے دیا جائے اور جن کمروں میں لکڑی ، کوئلہ سے چلنے والی چمنی ہو ، وہاں بیٹھنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ایسے بچوں کے لئے حمام کی گرمی یا ہیٹر کی گرمی مناسب ہے۔ علاوہ ازیں اس مرض میں مبتلا بچوں کو سردیوں میں مناسب، متوازن اور مقوی غذا کھلائی جائے اور پانی و دیگر مائع جات کا وافر مقدار استعمال کروایا جائے تاکہ وہ ناآبیدگی کے شکار نہ ہوں اور دمے کے حملوں سے بچ جائیں۔ ہمارے ہاں عموماً ان بچوں کو دودھ، دہی ، مکھن ، سبزیاں اور میوے نہیں دیئے جاتے ہیں جو کہ ایک غلط روش ہے۔ ان بچوں کو انواع واقسام کی غدائیں کھلانا ضروری ہے تاکہ ان کے جسم کے اندر نظام قوت مدافعت بہتر طور کام کرسکے اور وہ انفکشنز کے شکار نہ ہوں۔ ڈاکٹری لحاظ سے ان بچوں کے لئے کوئی غذائی پابندی نہیں ھے ہاں اگر کسی خاص غذا سے الرجی ہو تو اسے نہ دیا جائے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ موسم سرما میں ان بچوں کو اکثر سردی ، کھانسی ،زکام کی شکایت ہوتی ھے اس کے لئے ڈاکٹروں سے مشورہ کرنا ضروری ھے اکثر دیکھا گیا ہے کہ دمہ میں مبتلا مریض پانی بہت کم پیتے ہیں کیونکہ ا ن کو (خاص کر سردیوں میں ) پیاس نہیں لگتی ہے۔
اکثر مریض یہ سوچتے ہیں کہ ان کو صرف اس وقت پانی پینا چاہئے جب ان کو پیاس لگے مگر تحقیق سے پتہ چلا ھے کہ پیاس لگنا اس بات کی یقینی علامت نہیں ہے جس میں نابیدگی، پیدا ہورہی ہے اکثر ایسا بھی ہوتاھے کہ نابیدگی کے باوجود بھی پیاس محسوس نہیں ہوتی اور مریض یہ سمجھتے ہیں کہ غذا کے ساتھ جو مشروبات جسم میں پہنچتے ہیں وہ اسے آبیدہ رکھنے کے لئے کافی ہیں۔ ان مریضوں اور بوڑھے لوگوں میں نابیدگی کا امکان زیادہ ہوتاہے لہٰذا انہیں اس سلسلے میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ پیاس لگے یا نہ لگے ، وقفے وقفے سے پانی پیتے رہنا ان مریضوں کے لئے بے حد فائدہ مندہے۔ اس کے علاوہ ان مریضوں کے لئے طبی نقطہ نظر سے یہ ضروری ہے کہ رات کا کھانا کھاتے ہی فوری لیٹ نہ جائیں بلکہ کھانا کھانے کے بعد کم ازکم دو گھنٹے بیٹھے رہیں ماہرین کے مطابق موسم سرما کے آغازا وراخر میں دمہ میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوتاہے۔ اسپتال میں بھرتی ہونے والے مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوجاتاھے جن میں بیشتر دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں ان کا کہناہے کہ موسم سرما میں یخ بستہ ہوا میں ان افراد کے پھیپھڑوں میں چلے جانے سے سانس کی نالی سکڑ کر تنگ ہو جاتی ہیں اور نالیوں کے اندرونی حصوں پر بلغم کی تہیں جم جاتی ہیں اور اس طرح ان کو سانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی ہے اور ان پر دمہ کا حملہ شروع ہوتاہے۔ دوسری وجہ یہ ھے دیہی علاقوں میں کانگڑیوں اور چولہے کے دھوئیں سے کمرے بھر جاتے ہیں جو دمہ کے مریض کے لئے انتہائی مضر ہے۔
اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں گھر کے سبھی افراد ایک ہی کمرے میں بیٹھ کر وقت گذارتے ہیں اور اگر کسی ایک کو کوئی انفکشن ہوتو فوری طور دوسروں کے جسموں میں سرایت کرجاتاہے اور سردیوں میں ان Viral infections سے دمہ کے مرض میں شدت پیدا ہوتی ہے اور دمہ کے حملے شروع ہوتے ہیں اگر کوئی حجام ھے یا نرسنگ کے شعبے سے وابستہ ہے یا پھر کسی شخص کے کام میں جانوروں وغیرہ کی دیکھ بھال شامل ہے تو کام کے دوران مختلف قسم کے کیمیائی مادوں سے واسطہ پڑتاہے۔ یہ کیمیائی مادے بھی دمے کی بیماری کا سبب بن سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر مہندی وغیرہ ،گندم کا آٹا، جانوروں کی گندگی ، یہاں تک کہ سرجری میں استعمال ہونے والے دستانوں میں پایا جانے والا عنصرLatexاور کچھ ادویات جن میں پنسلین وغیرہ شامل ہیں یہ سب دمے کی بیماری کا سبب بن سکتے ہیں ایسے افراد اگر دمہ میں مبتلا ہوں تو اسکو پیشہ ورانہ دمہ یا بیماری حرفای کہتے ہیں کمرے میں بچھائے ہوئے کارپٹ یا قالین میں گردوغبار جراثیم اور بہت سے انرجن موجود ہوتے ہیں۔ ان میں ایک بہت چھوٹا سا کیڑا (Mite) بھی ہو سکتا ھے۔ جس کا فضلہ سانس کی تکالیف کا باعث بنتا ہے اس لیے اگر قالین اور کارپٹ پر کوئی چادر وغیرہ بچھائی جائے تو یہ ایک اچھی حفاظتی تدبیر ہے۔ کمرے میں خوشبو کا استعمال بھی سانس کی تکلیف کا باعث بن سکتا ہے۔ کھانسی اور سانس کی تکالیف والے مریضوں کو پھول کبھی نہیں سونگھنا چاہیے پھولوں میں موجود پولن ایسے مریضوں کے لیے انتہائی پریشانی کا باعث بن سکتی ہے حساسی Atopic Asthma آج کل تیزی سے پھیل رہا ہے جس کا بنیادی سبب پولیوشن ہے اور کسی مریض کو کسی بھی چیز سے الرجی ممکن ہوسکتی ہے۔
نزلہ زکام کی بیماری کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ بروقت صحیح علاج کروانا چاہئے آگے چل کر یہی نزلہ زکام دمے کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔کسی بھی وجہ سے ناک دونوں یا ایک بند ہو تو اس کو رات سوتے وقت سفیدے کے پتے جس کو بید مشک یا بھی کہا جاتا ہے تیز گرم پانی میں ڈال کر بھاپ روزانہ لینی چاہئے۔ گلے میں خراش اور تکلیف ہو تو بھی اسی پانی میں تھوڑا نمک ڈال کر غرارے بھی کئے جاسکتے ہیں کسی حد تک یہ انہیلر کا نعم البدل ہے اور اس سے زیادہ سستا آسان اور منفی اثرات سے پاک ہے۔ انتہائی ضروری ہو توانہیلر لینا ضروری ہے
۔ اس کے ساتھ قرآنی دعایں بھی بہت مفید ھے۔ سورة فاتحہ روزانہ 313 مرتبہ پڑھ کر سینے پر دم کریں۔ موسم سرما میں حسب ذیل صورتوں میں ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ھے۔ راہ چلتے اچانک کھانسی شروع ہوجائے ،سینے پر دباو ¿ محسوس ہواور سانس لینے میں دقت ہو۔ جب باہر سے واپس آکر گھر میں سانس پوری طرح اور آسانی سے نہیں لی جاسکتی ہو اور سانس لیتے ہوئے منہ سے آواز ”ویز”نکلتی ہو۔ جب رات کو سانس کی تکلیف یا کھانسی کی وجہ سے نیند میں خلل پڑے اور کھانسی کی وجہ سے بسترے سے اٹھنا پڑے۔ جب تھوڑی دور چلنے کے بعد سانس پھولنے سے پریشانی محسوس ہو۔جب کسی سے بات کرتے وقت دوران گفتگو سینے کے اندر دباو سا محسوس ہو جب سانس لینے کی انتہائی رفتار میں گراوٹ یعنی کمی واقع ہو۔جب کسی خاص قسم کا ذہنی دباو ¿ ، کھچاو ¿، یا تناو ¿ محسوس ہو مختصر یہ کہ موسم سرما میں دمہ کے مریض اپنے آپکو یخ بستہ ہواﺅں سے بچا کر رکھیں۔ اپنے آپ کو دھول ،گرد وغبار اور دھوئیں سے دور رکھیں۔ متوازن اور مقوی غذا کھانے کی عادت ڈالیں۔ میوے اور سزیاں اورپانی وافر مقدار میں استعمال کریں۔ گھر میں کسی بھی فرد کو کوئی انفکشن ہو اسکا بروقت اور مناسب علاج کروائیں۔بچوں کو باہر سڑک پر ، میدانوں میں کھیلنے کی اجازت نہ دیں اور اگرآپ دمہ کے مریض ہیں اور کسی وجہ سے پے درپے حملوں کے شکار ہونے لگیں تو فوری نزدیکی ہسپتال جائیں یا کسی ماہر ڈاکٹر کے پاس جاکر علاج کروائیں۔