جرمن (جیوڈیسک) جرمنی میں بطور مہاجر مقیم کئی افراد چھٹیاں منانے اپنے اپنے ملک واپس چلے جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک شامی مہاجر نے اپنے ملک میں چھٹیاں گزارنے سے متعلق ایک ٹویٹ کی، لیکن یہی عمل اسے بہت مہنگا پڑا۔
داؤد نبیل کا تعلق شام سے ہے اور وہ کچھ برسوں سے بطور مہاجر جرمنی میں مقیم ہیں۔ چھٹیوں کے دنوں میں وہ کچھ دنوں کے لیے وطن لوٹ گئے اور واپس آ کر اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ”شام میں چھٹیاں منا کر ابھی واپس لوٹا ہوں۔ بہت اچھا وقت گزرا۔‘‘
کچھ ہی دیر بعد جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرین و ترک وطن (بی اے ایم ایف) نے نبیل کی ٹویٹ کے جواب میں ایک طویل پیغام لکھ ڈالا۔ اس وضاحتی پیغام میں درج تھا، ”اپنے آبائی وطن واپس جانا جرمنی میں فراہم کی گئی سیاسی پناہ واپس لے لیے جانے کی ایک مضبوط وجہ ہو سکتا ہے۔ جب پناہ دیے جانے کا جواز ہی ختم ہو جائے تو تسلیم شدہ مہاجر کا درجہ بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔‘‘
داؤد نبیل تنہا نہیں ہیں، اس سے پہلے بھی جرمنی میں مقیم کئی مہاجرین نے اپنے اپنے آبائی ممالک کو غیر اعلانیہ اور محدود عرصے کے لیے واپسی اور وہاں سیر سے متعلق پیغامات اور تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں، تو بی اے ایم ایف کی جانب سے انہیں بھی ایسے ہی پیغامات موصول ہوئے تھے۔
لیکن کیا کسی مہاجر کے اپنے آبائی وطن واپس جانے سے اسے حاصل سیاسی پناہ ختم کی جا سکتی ہے؟ ڈی ڈبلیو اور چار دیگر یورپی میڈیا ہاؤسز کے باہمی تعاون سے مہاجرین سے متعلق شروع کردہ ویب سائٹ ‘مہاجر نیوز‘ نے اس وفاقی جرمن دفتر سے رابطہ کر کے پوچھا تو بی اے ایم ایف کا کہنا تھا کہ ایسا ممکن ہے لیکن کیوں کہ ہر معاملہ انفرادی طور پر دیکھا جاتا ہے، اس لیے کوئی حتمی بیان نہیں دیا جا سکتا۔
جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں میں سے سب سے زیادہ افراد کا تعلق ترکی سے ہے۔ ایسے ترک باشندوں کی تعداد 5 لاکھ 47 ہزار بنتی ہے۔
شامی نژاد جرمن وکیل نہلہ عثمان کا کہنا ہے کہ جرمنی میں مقیم مہاجرین اگر کبھی اپنے وطن لوٹیں بھی تو انہیں سوشل میڈیا ویب سائٹس پر اپنے سفر سے متعلق پیغامات یا تصاویر شائع کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
‘مہاجر نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے نہلہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ صرف سوشل میڈیا پر شائع کردہ پیغامات کسی شخص کو حاصل مہاجر کا درجہ ختم کرنے کے لیے ناکافی ہوتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں اہم شواہد کے طور پر پیش تو کیا ہی جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”بی اے ایم ایف کے اہلکاروں کے پاس جب ثبوت موجود ہوں کہ کوئی مہاجر واپس اپنے آبائی وطن گیا تھا، تو وہ اس کی سیاسی پناہ ختم کرنے کا عمل شروع کر کے مذکورہ مہاجر سے وطن واپس جانے کی وجوہات دریافت کر سکتے ہیں۔‘‘
اس ضمن میں اہم بات یہ بھی ہے کہ عام طور پر مہاجرین کو اس لیے جرمنی میں سیاسی پناہ دی جاتی ہے کہ اُن کے آبائی وطنوں میں ان کی جانیں محفوظ نہیں ہوتیں۔ اپنے ملک واپسی کی صورت میں یہ جواز ختم ہو جاتا ہے اور اسی وجہ سے انہیں حاصل مہاجر کا درجہ بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔ مہاجرین مخالف عوامیت پسند جرمن سیاسی جماعت اے ایف ڈی ایسے واقعات پر شدید تنقید کرتی رہی ہے اور ایسے سیاسی عناصر کے دباؤ کے باعث جرمن ادارے بھی ایسے معاملات کو بہت سنجیدگی سے دیکھتے ہیں۔
ماہر قانون نہلہ عثمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی انتہائی مجبوری کی صورت میں اگر کسی مہاجر کو اپنے وطن واپس جانا پڑے تو پھر اس کو دی گئی سیاسی پناہ منسوخ نہیں کی جا سکتی۔