اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق ’ایچ آر سی پی‘ نے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پولیس کے تربیتی مرکز پر پیر کی شب ہونے والے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی پر نظرثانی کی جائے تاکہ ملک میں جاری خونریزی کا خاتمہ کیا جا سکے۔
’ایچ آر سی پی‘ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’’یہ بات تشویش ناک ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف کوششوں کے باوجود دہشت گرد صوبے کے بڑے شہر کوئٹہ میں ایک بڑا حملہ کرنے میں کامیاب ہوئے جس میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے۔‘‘
انسانی حقوق کمیشن کے مطابق پولیس کے تربیتی مرکز پر حملے کے ذمہ داروں سے متعلق کوئی قیاس آرائی کرنا قبل از وقت ہے ’’تاہم پاکستان کو اپنے ہمسائیوں کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات پر سنجیدگی سے توجہ دینا ہو گی۔‘‘
تنظیم کا کہنا تھا کہ ’’مختلف محاذ کھولے رکھنا دانشمندی نہیں ہے۔ بالخصوص موجودہ دہشت گردی کے دوران، جس کا دائرہ سرحد پار پھیلا ہوا ہے، سکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور بھی زیادہ ضروری ہے۔‘‘
کوئٹہ میں پولیس کے تربیتی مرکز پر حملے کے بعد حکام کی طرف سے کہا گیا کہ حملہ آور افغانستان میں رابطے میں تھے۔ تاہم افغان قیادت کی طرف سے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی ضروری ہے۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار نے منگل کو ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ اس طرح کے حملوں کا مقصد مایوسی پھیلانا ہوتا ہے۔
’’دشمن یہ چاہتا ہے کہ جو اعتماد بحال ہوا ہے عوام کا ۔۔۔ وہ ہوا میں اُڑ جائے قوم پھر مایوس ہو قوم سوالات پوچھے، الزام تراشی ہو۔‘‘
انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے کہا گیا کہ”ایچ آر سی پی کا موقف ہے کہ صرف سکیورٹی آپریشنوں پر انحصار کرتے ہوئے دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ کوئی بھی ریاست، چاہے وہ کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہو، لوگوں کی حمایت کے بغیر دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔‘‘
تنظیم کی طرف سے کہا گیا کہ اس جنگ میں لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا نہایت اہم ہے۔
’’اگرچہ معاشرے میں امن کی بحالی سے متعلق متبادل بیانیے کی تشکیل کے حوالے سے بہت کچھ کہا گیا ہے تاہم اس جانب بہت کم اقدامات کیے گئے ہیں۔ اس بیانیے میں بلا تاخیر تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘‘
وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ خامیوں کو دور کیا جا سکے۔
’’کوئی جان بوجھ کر نہیں کرتا، لیکن ہمیں جو اپنی کمزوریاں ہیں ان کو ختم کرنا ہے اور بار بار یہ ہو رہا ہے تو اس میں خواہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے وفاقی حکومت کی ہے، سکیورٹی ایجنسیز کی ہے، انٹیلی جنس ایجنسیز کی ہے ہمیں اس کو (دیکھنا) چاہیئے۔۔۔۔ ایک چیز جو ابھی تک نہیں ہوئی اور آج میں پھر اس بات کو دہراؤں گا کہ سلامتی کی ذمہ داری کی روح گردانی ہوئی ہے تو پھر جو ذمہ دار ہیں اُن کے خلاف پبلک کارروائی ہونی چاہیئے وہ معطل ہونے چاہیئں اُنھیں اپنے عہدے سے علیحدہ ہونا چاہیئے۔‘‘
حکومت کا دعویٰ رہا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی کارروائی کے سبب ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود عسکریت پسندوں نے حالیہ مہینوں میں کئی مہلک حملے کیے ہیں۔
آٹھ اگست کو کوئٹہ میں ہونے والے خودکش حملے میں 73 افراد مارے گئے تھے جن میں اکثریت وکلا کی تھی جب کہ ستمبر میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع مردان میں کچہری پر حملے میں ایک درجن سے زائد افراد مارے گئے۔
ستمبر ہی کے مہینے میں پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں نماز جمعہ کے دوران ہونے والے خودکش بم دھماکے سے 35 سے زائد افراد مارے گئے تھے جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔
اس سے قبل مارچ میں لاہور میں ایسٹر کا تہوار منانے والے مسیحی برداری کے افراد کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں درجنوں ہلاکتیں ہوئیں۔