تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم اِن دِنوں جس چابک دستی اور مہارت کے ساتھ ہماری پاک فوج اپنے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے دن رات آپریشن ضرب عضب جاری رکھے ہوئے ہے، آج اس پر قوم کوبھی یہ قوی امید ہے کہ اَب وہ دن کوئی دور نہیں ہے کہ انشاءاللہ بہت جلد ہماری پاک فوج ملک سے دہشت گردوں اور دہشت گردی کا خاتمہ کر کے ہی سرخرو ہو گی۔
اگرچہ جنرل راحیل شریف نے 2016کو مُلک سے دہشت گردی کے خاتمے کا سال قرار دے دیا ہے جو کہ ایک طویل عرصے سے دہشت گردی میں جکڑی پاکستانی قوم کے لئے خوش آئندامر ہے تو وہیں آج ساری پاکستانی قوم بھی اپنی پاک فوج کے شانہ بشانہ ہے اور الرٹ رہ کر اپنی پاک فوج کی ہر طرح سے مدد کرنے کے لئے بھی باہم متحد اور منظم ہے۔
جیسا کہ گزشتہ دِنوںچارسدہ حملے کی تحقیقات میں پیش رفت کا جائزہ لینے کے لئے اپنی نوعیت کا ایک اہم ترین اجلاس پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی زیرصدارت کورہیڈکوارٹرز پشاور میں ہوااجلاس کے بعدمیڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے ہمارے ڈائریکٹرجنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہاکہ” باچاخان یونیورسٹی چارسدہ پر حملے میں چاردہشت گرد اور چار سہولت کارشامل تھے سہولت کاروں کو پکڑلیاہے ، چارسدہ حملے کی یہ کارروائی افغانستان کے ایک علاقے سے کنٹرول کی گئی ، دہشت گردوں نے وہیں تربیت حاصل کی‘ ‘ اِس موقع پر اِن کا یہ بھی کہناتھاکہ ” اَب جو ہوگا سب دیکھیںگے، ہم نے یہ نہیں کہا کہ حملہ افغانستان نے کرایا۔
Bacha Khan University Attack
آج اِس میں شک نہیں کہ زمینی حقائق کے پیشِ نظر اَب تک کی چارسدہ حملے کی ہونے والی صاف وشفاف تحقیقات کے بعد یہ بات روزِروش کی طرح حق وسچ پر مبنی ہے کہ ” چارسدہ حملہ افغانستان سے کنٹرول ہوا “اَب اِس پر کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کی جانب سے قوم میں کسی بھی صورت دورائے کا پیدا کیاجانا …یا..پیدہونا ، دراصل ہمارے تحقیقاتی اداروں کی تحقیقات اور شواہد کو جھٹلانا ہوگا یعنی یہ کہ ہمارے تحقیقاتی اداروں نے چارسدہ حملے سے متعلق جتنی بھی تحقیقات کیں اور جتنے بھی شواہداور تحقیقات قوم اور دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں اَب ایسے میں ہماری کسی مُلکی سیاسی یا مذہبی جماعت کی طرف سے شک کی بنیاد پر اِس تحقیقات کو مسترد یارد کرنا یا ردکیا جانا ،اصل میں مُلک اور قوم کے ساتھ غداری اور بغاوت کے مترادف ہوگااوریہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں غداراور بغاوت کرنے والے کی کیا سزا ہے؟۔
بہرحال،اِس سے بھی انکار نہیں کہ جب تک بھارت کی افغانستان میں بے لگام مداخلت جاری رہے گی افغانستان کے راستے دہشت گرد پاکستان میں سہولت کاروں کی مدد سے گھستے رہیں گے اور حملے کرتے رہیں گے،اورہمارے تمام شواہد پیش کرنے کے باوجود بھی کہ” چار سدہ حملہ افغانستان سے کنٹرول ہوا ہے “ ہمارے اِس کہے کو ہربار افغان صدارتی ترجمان اور حکومتِ افغانستان تسلیم نہیں کریںگی بلکہ اُلٹااِس طرح کہہ کراپنی جان چھڑائے گی کہ ” افغانستان کی حکومت باچا خان یونیورسٹی حملے میں افغان سرزمین استعمال ہونے کے پاکستانی موقف کو یکسر مستر د کرتی ہے اور دوٹوک یہ کہتی ہے کہ افغان حکومت نے کسی دہشت گرد کو پناہ دی نہ چارسدہ حملے میں ہماری سرزمین استعمال ہوئی “ جیسے صریحاََ جھوٹ پر مبنی جملے اداکرکے افغانستان پاکستانی شواہد و ثبوتوں اور موقف کو تسلیم کرنے سے انکاری رہے گا۔
کیونکہ موجودہ حالات میں پاکستان کومعاشی اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے مفلوج کرنے کے لئے افغانستان اور بھارت کا ہونے والاگٹھ جوڑاِن ہی مقاصد کے حصول کی ایک کڑی ہے یعنی یہ کہ آج ایک طرف بھارت نے دنیا دکھائے کے لئے پاکستان سے دوستی کا ہاتھ بڑھادیاہے تو وہیں بھارت دوسری جانب افغانستان کو پاکستان میں دہشت گردی کے لئے اپنی گود میں بیٹھاکر لولی پاپ چوسارہاہے اور افغانستان میں روپوش طالبان قیادت سے اپنے رابطے بڑھاکرپاکستان پر حملے کے لئے ڈالرز کے عوض افغان دہشت گردوں اورشہریوں کو خرید کر استعمال کررہاہے تو دہیں آج افغان روس کے جنگ کے دوران پاکستان میں برسوں پناہ لینے اورمدتوں پاکستان کا نمک کھانے والی افغان قیادت اپنی لالچی فطرت سے مجبور ہوکر پاکستان سے نمک حرامی پر اتر چکی ہے اور افغان قیادت بھارت جیسے مکار اور عیار مُلک کے ہاتھوں پاکستان دُشمنی میں لٹوبن کر بھارت کے اشاروں پر ناچ رہی ہے اور ا فغان قیادت بھی اپنے دہشت گردشہریوں کو بھارت کے ہاتھوں پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے لئے بھیج کر بھارت سے اپنی دوستی کا حق اداکررہی ہے۔
آج تب ہی اِن حالات اور واقعات کے تناظر اور افغانستان کی پاکستان سے نمک حرامی کے پیشِ نظر گزشتہ دِنوں کرنل شیرخان کیڈٹ کالج صوابی میں یوم والدین کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک انداز سے کے پی کے کے وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ پرویز خٹک نے بھی یہ آواز بلند کرنی شروع کردی ہے کہ”ہم آخرکب تک لاشیں اُٹھائیں گے،وفاقی حکومت افغان مہاجرین کو واپس بھجوائے“ (اَب وفاق کو بھی کے پی کے کے اِس مطالبے پر سنجیدگی سے جلد عملی اقدامات کو یقینی بناناہوگا اور تمام اندرونی اور بیرونی مصالحتوں اور دباو ¿سے بالاتر ہوکر افغانیوں کو واپس افغانستان بھجوانا ہوگا ورنہ آنے والے دِنوں میں ملک میں ایک نیا سیاسی بحران پیداہوجائے گا)اور اِسی کے ساتھ ہی پرویز خٹک نے پولیس کو صوبے میں غیرقانونی طور پرمقیم افغان مہاجرین کو سرحد پاربھیجنے کی ہدایت کرتے ہوئے بلاجھجک یہ واضح کر دیا ہے کہ” اگر مُلکی سلامتی کو یقینی بنانا ہے تو پاک افغان بارڈرسمیت تمام سرحدوں کو بھی محفوظ بنانا ہو گا۔
Pak-Afghan Border
اِن کا کہنا تھا کہ ”جب تک ہماری سرحدیں محفوظ نہیں ہوگی تب تلک ملک و قوم کی سلامتی خطرے میں رہے گی ملک کو پر امن بنانے کے لئے فیصلہ کن مرحلہ آگیا، سب کو ملکر کام کرناہوگا “اِس موقع پر اُنہوں نے وفاقی حکومت کو پوری قوت سے مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ” بس وفاقی حکومت افغان مہاجرین کو واپس بھجوائے ، افغان بارڈر پر بغیرپاسپورٹ آمدورفت کا سلسلہ بند ہونا چاہئے ، کب تک لاشیں اُٹھائیں گے ، افغانستان سے دوٹوک بات کرنا ہوگی ،“اور اتنا کچھ کہنے لینے کے بعد پرویزخٹک نے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیاکہ ” افغانوں کی واپسی پر یقینا کچھ لوگ ناراض ہوں گے“ مگریہاں اُنہوں نے یہ نہیں بتایاکہ پاکستان کے اِس اقدام سے کون سے لوگ ناراض ہوں گے..؟؟؟ ۔ اگر اِس موقع پر پرویز خٹک ناراض ہونے والوں کا نام لے کر یہ بھی بتادیتے کہ افغانوں کی پاکستان سے واپسی پر یہ… یہ لوگ ناراض ہوں گے تو یہ کتنااچھاہوتاکہ ہم ایسے افغان ہمدردوں کو یہ کہتے کہ ہم نے تو اتنے عرصے افغانوں کو اپنے دامن میں چھپائے رکھا۔
اِنہیں اپنا نمک کھلایا اور اپنا خون پسینہ پلا کر پالیااور اِنہیں اپنے یہاں پناہ دی، مگر یہ پھر بھی یہ کمبخت ہمارے لئے احسان فراموش اور آستین کے سانپ ثابت ہوئے اَب آج تم جو اِن افغانوں کے اتنے بڑے ہمدرد اور خیرخواہاں بن رہے ہوتو بھائی.. !! اِن سے ہماری جان چھڑاو ¿ ،مگر چلوتم ہی افغانیوں کو اپنے یہاں پناہ دے دو، اور خود ہی دیکھ لو کہ یہ کیسے احسان فراموش اور نمک حرام لوگ ہیں..؟؟ہمیں یقین ہے کہ یہ جب اتناکچھ اچھاکرنے کے باوجودبھی ہم پاکستانیوں کے نہیں ہوسکے ہیں تو یہ کسی کے بھی نہیں ہوسکتے ہیں، کیونکہ ہمیں تو یہ لگ پتہ گیاہے کہ افغانی مطلب کے یار اور ڈالرز کے بچاری لوگ ہوتے ہیں، یہ اپنے مطلب کے وقت دوست اور اپنامطلب نکل جانے کے بعد اپنے ہی دوست کے سب سے بڑے اور خطرناک دشمن بن جاتے ہیں اور اگر آ پ کا کوئی( بھارت جیسا ) دُشمن افغانیوں کو ڈالرز دکھادے تو پھر یہ اپنی دُشمنی کو ڈالرز کی چمک سے اتنی بڑھادیتے ہیں کہ بس پھر یہ ہوتے ہیں اور اِن کی دُشمنی ہوتی ہے جیساکہ آ ج کل پاکستان کا ازلی دُشمن بھارت افغانستان کواپنی گود میں بیٹھاکرلولی پاپ چوسارہاہے اور افغانستان پاکستان دُشمنی میں بھارت کے ہاتھوں استعمال ہوکر بھارت سے بھی دوہاتھ آگے نکل چکا ہے۔
اَب ایسے میں بھارت کی گود میں بیٹھالولی پاپ چوستا افغا نستان پاکستان کے احسانوں اور پاکستان کے کھائے ہوئے نمک کو یاد کرے اور اپنے ماضی میں ایک بار ضرور جھانک کر یہ دیکھ لے کہ جب کہیں اِسے سرچھپانے کے لئے کوئی بھی مُلک اپنی سرزمین پرایک انچ بھی جگہہ نہیں دے رہاتھا حتیٰ کہ یہ بھارت بھی جو آج افغانستان کا بڑادوست بناہواہے اِس نے بھی اپنے یہاں افغانیوں کو پناہ دینے سے کھلی معذرت کرلی تھی اور یہ کہہ دیاتھاکہ یہ پہاڑوں میں رہنے والی جاہل قوم ہے اِس کی تہذیب جنگ وجدل اور ماردھاڑ سے بھری ہوئی ہے۔
اِس پتھر کے دور میں رہنے والی جاہل قوم کو بھارت اپنے یہاں کسی صورت بھی پناہ نہیں سے سکتاہے ہمارے بھارتیوں کا بھی افغان مہاجروں کی وجہ سے ماحول خراب ہوگا تب اِس دنیاکے دھتکارے اور پھٹکارے افغانستان کو پاکستان ہی نے اپنی مقدس اور کلاشنکوف اور ہیروئین سے پاک سرزمین پر جگہہ دی تھی جس کے بدلے میں اِن افغانیوں نے پاکستان کو کلاشنکوف اور ہیروئین کا کلچردیا مگر آج افسوس یہ ہے کہ اِسی احسان فراموش اور نمک حرام افغانستان بھارت سے اپنی دوستی کاہاتھ بڑھاکر خود کو پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے لئے بڑے فخریہ انداز سے پیش کرکے اپنی دوستی نبھارہاہے اَب ایسے میں افغانستان پاکستان میں دہشت گردی کرنے سے باز آجائے ورنہ . .آج پاکستان بھی اپنے اِس موقف پر قائم رہے گااور امریکاسے اپنایہ مطالبہ اُس وقت تک جاری رہے گاکہ جب تک امریکا ڈرون حملوں سے افغانستان میں موجود ملافضل اللہ اور دیگردہشت گردوں کاخاتمہ نہیں کر دیتا ہے۔