وورز برگ: زخمیوں کی حالت تشویشناک، ملزم سے پوچھ گچھ جاری

German Police

German Police

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن شہر وورز برگ میں چاقو سے حملہ کر کے تین افراد کو ہلاک کرنے والے مشتبہ ملزم کا اسپتال میں علاج جاری ہے۔ چاقو سے حملہ کرنے کا واقعہ پچیس جون بروز جمعہ ہوا تھا۔

چوبیس سالہ مشتبہ شخص کے چاقو کے وار سے وورز برگ شہر کے مرکزی علاقے میں تین افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے میں کم از کم پانچ افراد شدید زخمی بھی ہیں۔ ان حملوں کے ملزم کا تعلق شورش زدہ افریقی ملک صومالیہ سے بتایا گیا ہے۔

موقع پر پہنچ کر پولیس نے مبینہ ملزم کو ٹانگ میں گولی مار کر زخمی کر کے حراست میں لیا۔ مشتبہ شخص کو زخمی حالت میں گرفتار کر کے اسپتال میں داخل کر دیا گیا ہے۔

جنوبی جرمن صوبے باویریا کی داخلی سلامتی کے اعلیٰ ترین سکیورٹی اہلکار اور وزیر داخلہ جوآخم ہیرمان نے بتایا ہے کہ حملہ آور کے بارے میں پولیس کو پہلے ہی علم تھا اور اس کا نفسیاتی علاج بھی چند دن قبل اسپتال میں داخل کروا کر کیا گیا تھا۔ ہیرمان نے یہ نہیں بتایا کہ مبینہ ملزم کو پولیس پہلے سے کس حوالے سے جانتی تھی۔

ہیرمان نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ اس حملے میں مسلم انتہا پسندی کو فی الحال نظر انداز نہیں کیا گیا اور اس تناظر میں یقینی طور پر تفتیشی عمل جاری ہے۔ اسپتال میں داخل حملہ آور سے پولیس اور سکیورٹی حکام پوچھ گچھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

یہ امر بھی اہم ہے کہ حملے کے ایک عینی شاہد نے بتایا کہ حملہ آور نے حملہ کرنے سے قبل ‘اللہ اکبر‘ کا نعرہ بھی لگایا تھا۔

پولیس کے مطابق وورز برگ میں حملہ کرنے والا مشتبہ صومالی حملہ آور نے پچیس جون کو جرمن وقت کے مطابق شام پانچ بجے چاقو سے حملے شروع کیے تھے۔ یہ شخص سن 2015 سے وورز برگ میں رہائش رکھے ہوئے ہے۔ اس کو حال ہی میں بے گھر افراد کی پناہ گاہ یا شیلٹر میں منتقل کیا گیا تھا۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حملہ آور کا مقتولین کے ساتھ کوئی نسبت یا کسی قسم کا تعلق نہیں تھا۔ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جانے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حملہ آور کے گرد لوگ جمع ہیں اور وہ اسے کرسیوں اور ڈنڈوں کی مدد سے قابو کرنے کی کوشش میں ہیں۔

باویریا کے وزیر داخلہ جوآخم ہیرمان کے مطابق اس حملے میں جو پانچ افراد زخمی ہوئے ہیں، ان کی حالت خطرے سے باہر نہیں ہے اور زیادہ خون بہنے کے ساتھ ساتھ گہرے اندرونی گھاؤ کی وجہ سے ان کی مجموعی حالت تشویش ناک ہے۔ ہیرمان کا مزید کہنا ہے کہ ان زخمیوں کی زندگیوں کو سنگین خطرات لاحق ہیں اور جان بچانے کی کوششیں معالجین جاری رکھے ہوئے ہیں۔ زخمی مشتبہ ملزم کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔