کوشش کریں گے کہ حجاج میرس سے محفوظ رہیں

Hajjaj

Hajjaj

سعودی عرب (جیوڈیسک) میں صحت کے حکام نے کہا ہے کہ وہ اگلے ماہ حج سے پہلے جان لیوا وائرس میرس پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔ ایم ای آر ایس (میرس) یعنی مشرق وسطیٰ میں سانس کی بیماری کا باعث بننے والا یہ وائرس بخار اور کھانسی پیدا کرتا ہے اور سنہ 2012 سے اب تک سعودی عرب میں 300 لوگوں کی جان لے چکا ہے جبکہ 700 سے زیادہ افراد اس سے متاثر ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ یہ وائرس اونٹ سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے، تاہم جہاں اونٹوں کو اس وائرس سے صرف معمولی سا زکام ہوتا ہے وہیں انسانوں میں یہ مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ میرس کا پہلا کیس دو سال پہلے سامنے آیا تھا اور اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ رواں برس حج کے موقعے پر دنیا بھر سے 20 لاکھ افراد کے جمع ہونے سے اس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

سعودی حکومت پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ اُس نے اس بیماری پر قابو پانے کے لیے ناکافی اقدامات کیے ہیں مگر سعودی حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ عازمین حج کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

میرس کے متعلق سعودی عرب حکومت کے مشیر پروفیسر طارق مدنی نے کہا: ’ہم نے حج کے لیے بہت انتظامات کیے ہیں تاکہ حج بغیر اس (میرس) طرح کے کسی معاملے کے بحسن و خوبی انجام پائے۔‘ سعودی عرب کے محکمۂ صحت کا کہنا ہے کہ صحت کے شعبے میں کام کرنے والے ہزاروں لوگوں کو اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی سخت تربیت دی گئی ہے۔

سعودی عرب کے نگراں وزیر صحت عادل بن محمد فقیہہ نے کہا ’میرس اب سعودی عرب کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم تمام تر ممکنہ کوشش کریں گے اور کر رہے ہیں تکہ ہمارے تمام مہمانان محفوظ حج ادا کر سکیں۔‘ البتہ عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ صورتحال اب بھی صحتِ عامہ کا مسئلہ ہے اور اُس نے عازمین حج کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سفر کرنے سے پہلے اپنے ڈاکٹروں سے مشورہ ضرور کریں۔

مرس کے وائرس کی وجہ سے مریض کو بخار اور کھانسی کے علاوہ سانس کی تکلیف اور نمونیا ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ گردوں کے ناکام ہوجانے کا خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے۔ اس کی زد میں آنے والے 40 فیصد افراد فوت ہو جاتے ہیں۔ فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ یہ مرض اونٹوں سے انسانوں میں کس طرح منتقل ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ شاید اس وائرس سے متاثر اونٹ کے ناک اور منھ سے نکلنے والی رطوبت یا پھر کچا دودھ بھی اس کا ذریعہ ہو سکتے ہیں۔

شاید اسی لیے ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو اونٹوں کے نزدیک رہ کر کام کرتے ہیں انھیں احتیاط برتنی چاہیے، انھیں ماسک اور دستانے استعمال کرنے چاہیں اور کچا دودھ نہیں پینا چاہیے۔ لیکن سعودی عرب میں عام طور پر اس طرح کی احتیاط نظر نہیں آتی۔ جبکہ یوسف کا کہنا ہے ’میں گذشتہ 17 برسوں سے روزانہ کچا دودھ پی رہا ہوں اور میں ٹھیک ہوں۔ یہاں سب محفوظ ہے۔‘ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ اس وائرس کو پھیلانے میں اہم کردار اونٹوں کا ہے یا پھر چمگادڑ اسے پھیلاتے ہیں لیکن انسانوں سے انسانوں میں یہ وائرس چھینک یا کھانسی کے چھینٹوں کے ذریعے پھیلتا ہے۔