تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان معذور افراد کی صلاحیتیں اور ان میں ملک و ملت کی خدمت کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ نارمل انسانوں سے کہیں زیادہ دکھائی دیتا ہے ۔یہ نظروں ہی نظروں میں ہم سے تقاضہ کرتے نظر آتے ہیں کہ خدارا ان پر ترس کھاکر نظر انداز نہ کیاجائے ، ان کو مایوس نہ کیا جائے، اور ان کو معذوری کے سبب دوسرے انسانوں سے کمتر نہ سمجھا جائے بلکہ ان کو معاشرے کی چین کا حصہ بننے میں مثبت کردار ادا کیا جائے ، یہی ان کیساتھ بہترین خیر خواہی ہے ۔ خصوصی افراد نے دنیا کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا ، انہوںنے اپنی محنت اور لگن سے معذوری کو شکست دیکر معاشرے میں اپنا مقام بنایا،اور اپنی صلاحیتوں سے یہ ثابت کر دیا اگران کے ساتھ ان کے ساتھ تعاون کیا جائے تو یہ عام لوگوں کی طرح اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔
تین دسمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں معذور افرادکے عالمی دن کے منانے کا مقصد دنیا بھرکے معذور افراد کو درپیش مسائل اجاگر کرنا اور معاشرے میں ان افراد کی افادیت پر زور ڈالنا ہے۔ دنیا بھر میں اس دن اسی مناسبت سے مختلف سرکاری و نیم سرکاری، سماجی تنظیموں اور این جی اوز کے زیراہتمام سیمینارز اور ورکشاپس کا اہتمام کیا جاتا ہے، تاکہ لوگوں کو قائل کیا جا سکے کہ وہ معذور افراد کے لئے ہر ممکن مثبت کوششیں بروئے کار لائیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 14 اکتوبر 1992ء کی ایک متفقہ قرار داد میں ہر سال تین دسمبر کا دن ، معذور افرادکے عالمی دن کے طور پر منانے کی باضابطہ منظور ی دی تھی۔
قوام متحدہ کے قانون کے تحت معذور افراد جنہیں خصوصی افراد یا سپیشل پرسن بھی کہا جاتا ہے ایسے افراد کو کہتے ہیں جو کسی ایسی جسمانی یا دماغی بیماری میں مبتلا ہوں جو انسان کے روزانہ کے معمولات زندگی سرانجام دینے کی اہلیت و صلاحیت پرگہرے اور طویل اثرات مرتب کرے یا وہ بیماری اس فرد کے کام کرنے کی اہلیت یا صلاحیت کو ختم کرے۔ معذوری ذہنی بھی ہو سکتی ہے جسمانی بھی، پیدائشی بھی ہو سکتی ہے اور حادثاتی بھی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں کل آبادی کا7 فیصد معذور افراد پر مشتمل ہے جبکہ دنیا بھر میں اس کا تناسب دس فیصد ہے ، اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں چھ سو پچاس ملین افرادمعذور ہیں ۔ لیکن یہ ایک المیہ ہے کہ معذور افراد کو ہمارے معاشرے میں بوجھ سمجھا جاتا ہے ۔ معذور افراد کی صورتحال کا جائزہ لیں توسرکاری اور نجی دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ، شاپنگ سینٹرز، ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشنوں اورہسپتالوں میں معذور افراد کو باآسانی رسائی ممکن نہیں۔
چونکہ عمارتوں کے انفراسٹرکچر میں معذور افراد کے لیے ریلنگ اور ریمپ نہیں بنائے جاتے جس کی وجہ سے جگہ جگہ معذور افراد کو اذیت کا احساس ہوتا ہے اور ان کی اکثریت گھروں تک محدود ہوجاتی ہے لہٰذا معذوروں کے احساس محرومی کا خاتمہ کرنے اور ان کی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ یہ معاشرے کا حصہ بن سکیں۔ پاکستان میںمعذور افراد کی فلاح و بہبود سے متعلق صرف ایک ڈس ایبل پرسنز ایمپلائنمنٹ اینڈ ری ہیبلی ٹیشن آرڈیننس 1981ء موجود ہے جس میں معذور افراد کے لیے نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ متعین ہے ، اس کے علاوہ علاج کی مفت سہولتیں ،اور معذور افراد کے بچوں کی سرکاری اداروں میں 75 فیصد جبکہ پرائیویٹ اداروں میں 50 فیصد فیس معافی اور روزگار کی یقینی فراہمی بھی اس قانون کا حصہ ہے۔ مگر اس کے باوجود اکثرمعذور افراد کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ مذکورہ آرڈیننس میں خاصی خامیاں، کمزوریاں موجود ہیں جنہیں رفع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت کے اعلان کے مطابق خدمت کارڈ سکیم کے تحت معذور افراد کو ماہانہ 1200 روپے مالی امداد دی جانی تھی مگر اس اعلان پر تاحال عمل درآمد نظر نہیں آیا۔
اسلام نے معذور افراد کی عزت و تکریم اور ان کا خیال رکھنے کا خصوصی طور پر حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے امت کو یہ تعلیم دی کہ معذور افراد دیگر معاشرے کی نسبت زیادہ توجہ کے مستحق ہیں۔ دوسرے افراد کو ان پر ترجیح دیتے ہوئے انہیں نظر انداز نہ کیا جائے۔ بلکہ دوسرے افراد پر انہیں ترجیح دی جائے۔ اسلام جہاں معذوروں کو عزت احترام دینے اورخیال رکھنے کا حکم دیتا ہے وہاں پر وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ان پر کوئی ایسی ذمہ داری نہ ڈالی جائے جو ان کے لئے ناقابل برداشت ہو۔ آج کا دن منانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم رنگ، نسل اور ذات سے بالاتر ہو کر یہ عہد کریں کہ خصوصی افراد کی بحالی میں، ان کو معاشرے کا حصہ بنانے میں ، ان کو روزگار کی فراہمی میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں گے۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان ای میل: ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033