کراچی (جیوڈیسک) مجلس صوت الاسلام پاکستان کے چیئرمین مفتی ابوہریرہ محی الدین نے کہا ہے کہ دہشت گردی کو مذہب سے جوڑنے سے قومی ایکشن پلان متاثر ہوگا، دہشت گرد کا کوئی جماعت ،فرقہ یامذہب نہیں ہوتا، 21 ویں ترمیم درست اقدام مگر حکومت مذہبی جماعتوں کے تحفظات بھی دور کرے، لاؤڈ اسپیکرکے بے جااستعمال پر پابندی ہونی چاہیے، 8 جنوری کو (کل) کنونشن سینٹرمیں پانچ ہزار نوجوان علما دہشتگردی کے خلاف مشترکہ اعلامیہ جاری کریں گے کل پاکستان بین المدارس تقریری مقابلے کا فائنل کل ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے یہاں مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پران کے ہمراہ مفتی ابوبکرمحی الدین، مولانا جمیل الرحمن فاروقی و دیگر بھی موجود تھے۔ مفتی ابوہریرہ محی الدین نے کہاکہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اکیسویں ترمیم خوش آئند اقدام ہے مگر اس ترمیم میں مذہب کانام شامل کرنا قابل افسوس بات ہے کیوں کہ مذہب کے نام کی شمولیت کی وجہ سے قومی ایکشن پلان متاثر ہو گا۔ انہوں نے مزید کہاکہ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص قتل کر دے تو آپ اس سے جاکریہ پوچھیں گے کہ آپ کا کیا مذہب ہے؟تب آپ قاتل کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلائیں گے
دہشت گردی کو کسی مسلک، مذہب یاجماعت سے منسوب کرنا درست عمل نہیں دہشت گرد کا کوئی مذہب اور فرقہ نہیں ہوتا ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ ملک سے جرائم کے خاتمے کے لیے اسلامی سزاؤں پرعمل درآمد کیا جائے دہشت گرد کوئی بھی ہے اس کو پھانسی پر لٹکایا جائے۔ ہم اس کی اجازت نہیں دینگے کہ مدارس کو دہشت گردی کا مراکز کہا جائے مدارس کادہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں اگر خدانخوانستہ کوئی مدرسہ دہشت گردی یا غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث بھی ہے تو اس کی نشاندہی کی جائے۔