آڈیٹر جنرل نے اسٹیٹ بینک میں 5 ارب کی کرپشن کی تصدیق کر دی

State Bank

State Bank

کراچی (جیوڈیسک) ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے کہا ہے کہ آڈیٹر جنرل نے اسٹیٹ بینک میں 5 ارب کی کرپشن کی تصدیق کر دی۔ چیئرمین نیب ملوث افسروں، میگااسکینڈل دبانے پر نیب کے ایف سی آئی ڈبلیو کے خلاف کارروائی کریں۔

پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کی آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بینکوں نے ترسیلات زر کی ٹرانسیکشنز کو غلط ڈکلیئر کرکے 2012 میں 5 ارب 30 کروڑ کمائے اوراسٹیٹ بینک بھی ان غلط کلیمز کو قبول کرتا رہا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فراڈسے کمائی پر بینکوں کو کوئی جرمانہ کیا گیا اور نہ ہی کوئی تادیبی کارروائی عمل میں آئی۔ کچھ بڑے بینک بھی اس غیر قانونی کاروبار میں ملوث رہے۔

اسٹیٹ بینک کی آڈٹ رپورٹ سے معلوم ہوا کہ 2011-12 میں انتظامیہ نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقم پر ٹیلی گرافک ٹرانسفر چارجز کے نام پر مختلف بینکوں کو 5 ارب 35 کروڑ روپے واپس کیے۔ بینکوں نے دھوکادہی سے ایک دن میں ایک شخص کی بھیجی ہوئی رقم کو 100 ڈالرز میں تقسیم کر دیا۔ تاکہ ہر ٹرانسیکشن پر 25 سعودی ریال کا فائدہ اٹھا سکے۔

18 اپریل 2013 کو معاملہ اسٹیٹ بینک کے نوٹس میں لایا گیا جس پر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ رقم تقسیم کرنے والوں کو سزا دی جائے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشل نے 2012 میں یہ میگا کرپشن کیس نیب کو رپورٹ کیا۔ مختلف اوقات میں اس حوالے سے نیب کو 4 خطوط ارسال کیے اوراسٹیٹ بینک سے ریکارڈ مانگا۔ نیب سے خط وکتابت میںاسٹیٹ بینک نے موقف اختیار کیا کہ 7 مئی 2012 کے جواب کے بعد ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا مگر یہ موقف حقائق کے منافی ہے۔

30 جولائی 2012 کے خط کی کاپی نیب اوراسٹیٹ بینک دونوں کو ارسال کی گئی تھی۔ 41 روز گزر جانے کے باوجوداسٹیٹ بینک کی جانب سے ریکارڈ فراہم نہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے اور اسٹیٹ بینک نہیں چاہتا کہ نیب معاملے کی تحقیقات کرے۔

ڈی جی نیب(ایف سی آئی ڈبلیو) کوثر اقبال ملک نے بھی معاملہ آگے نہیں بڑھایا۔ 2013-14 کی آڈیٹرجنرل کی رپورٹ نے واضح کردیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے خلاف ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کو شکایت درست تھی۔ صرف 2012 میں 5.3 ارب کی کرپشن ہوئی جبکہ گزشتہ 12 سال میں قومی خزانے کو 63 ارب کا نقصان پہنچایا گیا۔

چیئرمین نیب سے درخواست ہے کہ میگا کرپشن اسکینڈل دبانے پر ایف سی آئی ڈبلیو کے خلاف کارروائی کی جائے جبکہ کرپشن میں ملوث اسٹیٹ بینک اور دیگر بینکوں کے افسروں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔