بلوچستان کے تاریخی ضلع لسبیلہ کی سر زمین پر تبلیغی اجتماع ہونا تھا جس میں شرکت کی غرض سے میں بھی اپنی جماعت کے ہمراہ وہاں پہنچا اور میں نے وہاں جو روح پرور مناظر اور جو پرسکون ماحول دیکھا وہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ ہم اجتماع گاہ میں داخل ہوئے تو ہر طرف آدمی ہی آدمی تھی،لاکھوں کا مجمع تھا۔
پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ان لاکھوں لوگوں کی موجودگی میں کسی بھی حادثے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتاتھا مگر اجتماع گاہ کے اندرکسی کے چہرے پر یہ خوف نہ تھی۔ نہ ہی اس مجمع کی سیکیورٹی کیلئے ہیلی کاپٹر فضاء میں محو پرواز تھے، نہ ہی زمین پر حفاظت کیلئے کمانڈوز تعینات تھے،نہ ہی داخلی و خارجی راستوں پر کوئی واک تھرو گیٹز لگے ہوئے تھے اورنہ ہی سی سی ٹی وی کیمرے لگا کر کسی کنٹرول روم سے سیکورٹی انتظامات سنبھالے جارہے تھے،صرف کچھ مقامی رضاکار بانس کے ڈنڈے تھامے خدمت پر معمور تھے( جو صحیح معنوں میں اردو نہیں بول سکتے تھے، سیکیورٹی معاملات میں تو ان کا دور کا کوئی تجربہ نہیں تھا) مگر پھر بھی لوگ مطمعن تھے ہر گز لوگوں کو ان رضاکاروں کی سیکیورٹی پر بھروسہ نہیں تھالوگ صرف اللہ تعالی کے بھروسے پر مطمعن اور بے خوف تھے انہیں صرف اس ذات پر بھروسہ تھا جس سے وہ اپنے گناہوں کی مغفرت کیلئے یہاں اکھٹا ہوئے تھے۔
قارئین! یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے کے اندر عدم برداشت کی صورتحال یہ ہیکہ اگر ہم کسی سے ٹکرا جائیں اور غلطی بھی ہماری ہو پھر بھی ہم لڑ پڑتے ہیں مگر یہاں سب کا رویہ عاجزانہ تھا اگر آپ غلطی سے کسی سے ٹکرا جاتے تو آپ کی ٹکر کا نشان بننے والاآپ سے معافی کا طلب گار ہوتا، اجتماع گاہ کے اندر ہر جماعت کیلئے الگ الگ کمرے یا کیبن نہیں بنے ہوئے تھے بلکہ جس کو پنڈال کے اندر جدھر جگہ مل جاتی چٹائی بچھا کر اپنا سامان رکھ لیتا یہ تو اس کے ذہن بھی نہیں آتا کہ کوئی سامان اٹھا کر لیجائے گا اگر کسی کو کام سے کہیں جانا ہوتا تب بھی وہ برابر والے سے یہ درخواست کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ میری چیزوں کا خیال رکھنا۔
یقینا اسے لوگوں پر بھروسہ نہ تھا کیونکہ یہ وہی لوگ ہی تھے جو ہمارے ساتھ روزانہ ہوٹلوں میں رہائش پزیر ہوتے ہیں ، یہ وہی لوگ تھے جو ہمارے ساتھ روزانہ ہمسفر ہوتے ہیں مگر ہم دوران سفر ان پر بھروسہ کرکے سفری تھیلا (Travel Bag)کوبغیر تالالگائے رکھنے یا ہوٹل کے کمرے کو ان کے بھروسے کھلا چھوڑنے پر ہر گز تیار نہیں ہوتے ہیں مگر یہاں لوگوں کا بھروسہ اس خالق کائنات پر تھا جس کی رضا مندی کیلئے وہ یہاں جمع تھے۔
Hazrat Mohammad PBUH
اتنی بڑی بھیڑ میں ہر کوئی خود سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھ رہا تھا ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ اس کی وجہ سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ ہو۔ اب آتے ہیں اس پنڈال ( اجتماع گاہ) کے پیغام کی جانب جہاں صرف اور صرف وہی پیغام دیا جاتا تھا جو پیغام ہمیں چودہ سو سال پہلے آقا دو جہاں حضرت محمدۖ نے دی تھی ، یہ وہی پیغام تھا جو پیغام کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام نے دی تھی اور اس کیلئے محنت کی تھی یہ وہی پیغام تھا جس پر آج علماء کرام محنت کر رہے ہیں کہ اے لوگو! اس بات پر یقین رکھو کہ سب کچھ اللہ سے ہوتا ہے اور غیر سے کچھ نہیں ہوتا۔ اے لوگو! اپنی زندگی اللہ اورا س کے رسولۖ کے احکامات کے مطابق گزارو تم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوجائوگے ۔ یہی پیغام کہ اگر کوئی تھپڑ مارے تو اس سے لڑنے کے بجائے دوسرا گال پیش کردو۔ کسی بھی مرحلے پر یہ پیغام نہیں دیا گیا کہ شیعہ زائرین کا قتل عام کرو، کبھی یہ پیغام نہیں دیا گیا کہ غیر ملکیوں کو قتل کرو، یہی پیغام دیا گیا کہ انسانیت کی قدر کرو اور ہر انسان کو انسان سمجھ کر اس کا احترام کرواور اسے عزت دو۔ کبھی یہ پیغام نہیں دیا گیا لڑکیوں کو تعلیم نہیںدلائو انہیں قید کر کے رکھو۔
میں اپنے ان سیکولر، لبرل، ترقی پسند (ان کے بقول) اور مغربی دنیا کے حقیقت پسند دوستوں کو ( جو کہ اسلام کو شدت پسندی اور انتہا پسندی کا ذریعہ سمجھتے ہیں) دعوت دیتا ہوں کہ آئیں اسلام کے اس پر امن پیغام کو بھی اپنے کانوں سے سنیں اور اس پر امن ماحول کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں پھر اسلام کے متعلق اپنی رائے قائم کریں۔