چودہ اگست کو دن ایک بجے لاہور سے ہزاروں افراد کے ساتھ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے والے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان 46 دن کے بعد پھر لاہور پہنچے اورتحریک انصاف نے کراچی کے بعد لاہور میں بھی بھرپور سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا اور مینار پاکستان پر رنگ جما لیا۔گوکہ اس سے قبل دو جلسے مینار پاکستان پر اسی پارٹی کے ہو چکے تھے اور کم وقت میںتحریک انصاف کیلئے مینا رپاکستان جلسہ میں گرائونڈکو بھرنا ایک چیلنج بن گیا تھاکیونکہ ”آزادی انٹر چینج”بننے سے مینار پاکستان کے رقبہ میں 34ایکڑ کا اضافہ ہواہے اور یوں کل 55ایکڑ پر مشتمل نئے احاطہ میں 4لاکھ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جبکہ آزادی چوک پل کے اوپر اورنیچے بھی ہزاروں افرادکھڑے ہوسکتے ہیں۔
تحریک انصاف کے 30اکتوبر 2011ء اور 23مارچ 2013ء کے جلسوں کی نسبت اس بار مینار پاکستان میں دوگناسے بھی زیادہ گنجائش پیدا ہوچکی ہے ،گزشتہ دونو ں جلسوں میں پی ٹی آئی نے 50ہزار کرسیاں لگائیں اور3داخلی راستے بنائے تاہم اس جلسہ کیلئے 60ہزار کرسیاں اور4داخلی راستے ہیں اورپارٹی کا دعوی ٰتھا کہ 5لاکھ سے زائد افراد شرکت کرینگے ۔یہاں پرتحریک انصاف کے جلسے میں عوام کا جم غفیر دکھائی دیا۔اگر تعداد کی بات کی جائے تو آزادی ذرائع کے مطابق اڑھائی سے تین لاکھ افراد تھے لیکن اتنے کم وقت میں تحریک انصاف کا اتنے لوگوں کو جمع کر لینا اور وہ بھی لاہور میں جسے مسلم لیگ(ن) کا گڑھ سمجھا جاتا ہے مبصرین کے لئے حیران کن ہے،اس جلسے سے لگ رہا تھا کہ لاہور ن لیگ کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے
کیونکہ پیپلز پارٹی کے دور میں جب اسوقت کے صدر زرداری کے خلاف مہنگائی،لوڈ شیڈنگ کے حوالہ سے ن لیگ نے ریلی نکالی تھی تو اس میں چند ہزار لوگ تھے ۔گزشتہ دنوں حمزہ شہباز نے بھی ایک ریلی سے خطاب کیا اس میں بھی حاضری خاطر خواہ نہ تھی لیک عمران خان کے جلسوں نے تو سب کو حیران کر دیا۔مینار پاکستان گرائونڈجلسہ گاہ میں ہر طرف تحریک انصاف کے پرچم لہراتے رہے۔ سرخ اور سبز رنگ ہر طرف بکھرے ہوئے تھے۔ لگتا تھا کہ جیسے پرچموں کی بہار آ گئی۔ پنڈال میں ہر عمر اور طبقے کے لوگ موجود تھے۔ نوجوان، بوڑھے، خواتین اور بچے انتہائی پْرجوش نظر آئے۔ پارٹی نغموں کی گونج اور ڈھول کی تھاپ پر کارکن رقص کرتے رہے۔
خواتین نے جو ش و خروش میں مردوں کو بھی مات دے دی۔ جلسے میں ان کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ کئی خواتین اپنے بچے بھی ساتھ لے کر آئی تھیں۔ چہروں پر خوب صورت نقش ونگار اور سروں پر پارٹی کیپ کے ساتھ خواتین تمام وقت وکٹری کے نشان بناتی اور نعرہ بازی کرتی رہیں۔ بچے بھی انتہائی پْرجوش دکھائی دیئے۔ بوڑھے بھی کسی سے پیچھے نہ تھے۔ ایک معمر خاتون بھی بھنگڑا ڈالتی نظر آئی۔ کئی خواتین نے تالیاں بجاتے ہوئے رقص کیا۔ عمران خان کی جلسہ گاہ آمد پر کارکنوں نے ان کی گاڑی کو گھیر لیا۔ گاڑی کے ساتھ دوڑیں بھی لگاتے رہے۔
نعروں کی گونج کے باعث کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ عمران خان مینار پاکستان پہنچے تو کارکنوں کی بڑی تعداد کے باعث اْن کی گاڑی کو راستہ نہ مل سکا۔ اسی لئے وہ پیدل سٹیج تک پہنچے۔ عمران خان اور دیگر رہنماؤں کے بعد کارکنوں کی بڑی تعداد نے بھی سٹیج پر پہنچنے کی کوشش کی۔ کپتان ابھی ہاتھ ہلا کر کارکنوں کے نعروں کا جواب ہی دے رہے تھے کہ اْن کے قریب کھڑے علیم خان توازن برقرار نہ رکھ سکے اور گر گئے۔ اس دوران عمران خان کو بھی زوردار دھکا لگا اور وہ گرنے سے بال بال بچ گئے۔ ایک لمحے کے لئے وہ غصے میں بھی آئے اور پلٹ کر وہاں موجود رہنماؤں اور کارکنوں کو ڈانٹ بھی پلائی۔
نشست پر بیٹھنے کے بعد بھی عمران کان کا موڈ اچھا نہیں تھا لیکن شرکاء کی بہت بڑی تعداد دیکھ کر اْن کا غصہ جاتا رہا۔ وہ مسکرانے لگے اور اٹھ کرہاتھ ہلا کر شرکاء کے نعروں کا جواب دیتے رہے۔ اس سے پہلے آٹھ مئی 2013ء کو بھی لاہور کی ہی غالب مارکیٹ میں انتخابی جلسے کے دوران سٹیج پر چڑھتے ہوئے عمران خان اپنے محافظوں اور دیگر رہنماؤں سمیت گر گئے تھے۔ اس حادثے میں عمران خان کے سر کے پچھلے حصے پر چوٹ آئی اور سر سے خون بہنے لگا تھا جس کے بعد انہیں کافی دن بیڈ ریسٹ کرنا پڑا تھا۔مینار پاکستان پر جلسے کے دوران تحریک انصاف کی جانب سے شرکاء کی تعداد کا اندازہ لگانے کے لئے اسٹیج سیکریٹری فیصل جاوید خان نے ایک انوکھے طریقے کا استعمال کیا، انہوں نے شرکاء سے درخواست کی کہ تمام افراد اپنے موبائل فون نکال کر اس کی ‘لائٹ’ یا ‘ٹارچ’ جلا ئیں تا کہ اندازہ کیا جا سکے کہ لوگ جلسہ گاہ میں کہاں کہاں تک موجود ہیں۔
PTI
تحریک انصاف میں موجود ذرائع کے مطابق اڑھائی لاکھ سے زائد لوگ جلسہ گاہ میں اور ہزاروں لوگ اردگرد کی سڑکوں پر موجودتھے ۔مینار پاکستان میں بظاہر یہ جلسہ 30اکتوبر 2011کے جلسے سے بڑا تھا اور تحریک انصاف نے یوں اپنا ہی ریکارڈ توڑ ڈالا۔تحریک انصاف کے جلسے کو سیاسی حریفوں نے بھی تسلیم کیا ۔پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنماء اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ مینار پاکستان پر تحریک انصاف کے جلسے میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور یہ واقعی ایک بڑا جلسہ تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی تعریف تو کرنی پڑے گی۔ لاہور مسلم لیگ کاگڑھ ہے
ہم نے یہاں سے عام انتخابات میں بھاری کامیابی حاصل کی تھی تاہم تحریک انصاف نے بھی اسی شہر سے کافی ووٹ لئے تھے اور ہم آج بھی اس شہر کو مسلم لیگ ن کا ہی گڑھ سمجھتے ہیںلیکن شاید خواجہ آصف کو اس بات کا اندزہ نہیں تھا کہ اب تبدیلی آچکی ہے۔اگر ن لیگ میں ہمت ہے تو تحریک انصاف سے بڑا جلسہ کرنے کا عمران خان کا چیلنج قبول کرے ۔درحقیقت لاہور کے عوام نے دھاندلی اور عوام دشمن حکومت کے خلاف اپنا فیصلہ سنادیا، عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر نے گو نواز گو تحریک کو فیصلہ کن مرحلے میں داخل کر دیا، لاہور کے عوام نے جس جوش اور ولولے کے ساتھ عمران خان کو خوش آمدید کہا وہ سیاسی تاریخ کا سنہرا باب ہے
حکمران نوشتہ دیوار پڑھ لیں اور جتنی جلد ممکن ہو اپنا سامان باندھ لیں ورنہ عوام کا سامنا کرنا ان کیلئے ممکن نہیں رہے گا، پنجاب حکومت نے جلسے کو ناکام بنانے اور تحریک انصاف کے کارکنان کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا مگر عمران خان کے متوالوں نے تمام رکاوٹوں کو روند کر جلسہ میں شرکت کی۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کہتے ہیں کہ انہیں انتخابی دھاندلی پر انصاف ملنے تک نواز شریف کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے اور انہیں خوابوں میں بھی ”گو نواز گو ” کا نعرہ سنائی دے گا۔ ملک میں اگر انصاف ہوتا تواتنا کچھ کرنے کے بعد نواز شریف کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ملتی، نواز شریف کے برعکس انہوں نے جو کچھ کیا اپنے پیروں پر کیا۔ ہم نے کسی کو پیسے دے کر جلسے میں لوگوں کو نہیں بلایا۔
ایک جانب قوم جاگ گئی ہے اور دوسری طرف ملک کی تمام جماعتیں ایک ساتھ ہوگئی ہیں۔ وہ نواز شریف کو چیلنج دیتے ہیں کہ وہ یہاں اس جلسے میں لوگوں کا 10 فیصد بھی جمع کرکے دکھادیں۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نواز شریف کے خلاف پارلیمنٹ میں جھوٹ بولنے پر کیس کی سماعت ہونے والی ہے، درحقیقت نواز شریف نے پہلی مرتبہ جھوٹ نہیں بولا اس سے پہلے پرویز مشرف سے کئے گئے معاہدے پر بھی جھوٹ بولا گیا، اللہ ہمیشہ سچ سامنے لاتا ہے، مینار پاکستان میں جلسہ کرتے ہوئے جہاں عمران خان نے اپنے دھاندلی کے الزامات کو دھرایا
وزیر اعظم پاکستان کے استعفٰی کا مطالبہ کیا وہیں پاکستانی قوم کے ساتھ اپنائیت کا احساس دلاتے ہوئے عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا کہ اب سے آپ کا ہر غم میرا غم ہو گا اور آپ کی خوشی میری خوشی ہو گی۔آپ کی ہر تکلیف میری ہو گی اور اگر آپ خوش ہوں گے تو میں بھی خوش ہوں گا۔ان جذبات کا اظہار عمران خان نے اپنی تقریر کے آخری جملوں میں کیا اور قوم کہ یقین دلایا کہ اب وہ ایک مکمل عوامی نمائندے ہیں۔