تحریر : ڈاکٹر ایم اے قیصر آبائو اجداد کی قربانیوں سے حاصل کیا جانے والا قائداعظم محمد علی جناح کا پاکستان آج 68 برس کا ہو چکا ہے۔ 14 اگست کا دن ہر سال ہم سب پاکستانیوں کے لئے حریت و استقلال کا پیغامبر بن کے آتا ہے۔ ہمارے ذہنوں میں جدوجہد آزادی اور قربانیوں کی یاد تازہ کرتا ہے۔ 1857 ء میں جب انگریزوں نے ہندوستان پر اپنے قدم مضبوطی سے جما لئے اور ہندوستان کے رہنے والے غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ غلامی کا یہ احساس ان کے دلوں کو سلگاتا رہااور اپنے حقوق حاصل کرنے کی لگن ان کے دلوں میں کروٹیں لیتی رہی ۔ راکھ میں دبی چنگاڑی بالآخر سلگ پڑی اور ہندوستان کے رہنے والے متحد ہو کر انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے لگے۔ جلد ہی مسلمانوں کو ادراک ہوا کہ ہندوئوں کو مسلمانوں کی آزادی کبھی بھی قبول نہ ہو گی۔ مسلمان انگریزوں کی آزادی سے نکل بھی آئے تو ہندوئوں کی غلامی میں چلے جائیں گے۔ اسی خیال کے پیشِ نظر مسلمانوں نے 1906 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے اپنی ایک الگ جماعت قائم کی اور ہندوئوں کی کانگریس کو خیر باد کہہ دیا۔
آہستہ آہستہ آزادی کا مطالبہ شدت پکڑتا گیا اور ہندو اور مسلم دونوں قومیں شدت کے ساتھ آزادی کی طرف بڑھنے لگیں۔ انگریزوں نے پوری شدت کے ساتھ اس مطالبے کو دبانے کی کوشش کی۔ پر امن جلسوں پہ پولیس اور فوج سے گولیاں چلوائیں ۔ آزادی کے متوالوں کو جیلوں میں بند کر دیاپھر بھی یہ جیالے بڑے صبر و تحمل اور عزم و استقامت کے ساتھ سب صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ بالآخر انگریزوں کو ان کے آگے سر جھکانا پڑا اور ہندوستان کو بہت سی مراعات حاصل ہو گئیں لیکن ان مراعات سے مسلمانوں سے زیادہ ہندو مستفید ہوئے۔ 1930 ء میں علامہ محمد اقبال نے الہ آباد کے مقام پر خطاب کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ اسلام ایک زندہ قوت اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔
ہندوستان میں دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان ہیں۔ مسلمان ایک قوم ہیں ان کے لئے الگ مسلم ریاست کی ضرورت ہے۔ اسی تصور کی بنیاد پر مسلم لیگ نے علیحدہ وطن کو اپنا نصب العین بنا لیا ۔ مسلم لیگ کے اس فیصلے کے بعد انگریز اور ہندو اس کوشش میں مصروف ہو گئے کہ مسلمانوں کا یہ تصور آزادی ایک خواب ہی رہے، شرمندہ تعبیر نہ ہو لیکن قائد اعظم کی قیادت میں مسلمان تہیہ کر چکے تھے کہ وہ ایک الگ وطن حاصل کر کے ہی رہیں گے ۔ جس میں وہ پوری طرح سے آزاد ہوں اور بالآخر مسلمانوں کے پختہ عزائم اور قائدِ اعظم کے سیاسی تدبر کے سامنے انگریزوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کرنا پڑی۔ 14 اگست 1947 ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے ایک نئی اسلامی مملکت معرضِ وجود میں آگئی۔ مسلمانوں کو یہ دن سالہا سال کی جدوجہد اور بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہوا۔
Pakistan Flag
دنیا کی وہ تمام قومیں جو ماضی میں غلامی کا شکار ہوئیں وہ اپنا یومِ آزادی بڑے جوش و خروش کے ساتھ مناتی ہیں۔ پاکستان میں بھی 14اگست ایک قومی تقریب کی حیثیت رکھتا ہے اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ سبز ہلالی پرچم لہرایا جاتا ہے، ریڈیو اور ٹیلی ویژن خصوصی نشریات پیش کرتا ہے۔ عوامی سطح پر جلوس و تقریبات کا اہتمام کیا جاتاہے۔ سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوںمیں جشنِ آزادی کی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ تقاریر، اشعار اور ملی نغموں سے آبائو اجداد کی قربانیوں کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔ پاکستان ایک عظیم نعمت اور عطیہ الہٰی ہے، ہمیں چاہئے کہ اس کی دل و جان سے قدر کریں، اسے اسلامی ملک بنائیں۔ ہم اس کی جتنی زیادہ قدر کریں گے اور اس نعمتِ خداوندی کا شکر ادا کریں گے یہ اتنا ہی مضبوط، مستحکم اور خوشحال ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے کامیابیوں اور فتوحات کے دروازے کھولے گا، ہمارے مسائل حل ہوں گے اور دشمن ناکام و نامراد ہوں گے۔ ہمارے وہ بزرگ جنہوں نے ہندوئوں کی تنگ نظری اور تعصب دیکھا ہے۔
انگریزوں کی دشمنی کا دور اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے۔ ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہئے۔ یہ آزادی ہمیں یوں ہی حاصل نہیں ہوئی، ہمارے آبائو اجداد نے اس کے لئے عزت و آبرو، جان و مال کی بے شمار قربانیاں دی ہیں تب جا کے کہیں یہ آزادی حاصل ہوئی۔۔۔ آزادی کی قدر پوچھنی ہے تو خون سے نہاتے فلسطینیوں سے پوچھ۔ ۔۔ہمیں اس آزادی کی قدر کرنی چاہئے۔ ۔۔ ہم نے اس ملک کو کلمہ طیبہ کی بنیاد پہ حاصل کیا، اس عقیدے کے ساتھ کہ ہم ایک قوم ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس سبز ہلالی پرچم کے سائے میں جمع ہو کر متحد ہو جائیں۔ہماری سوچ کا دائرہ صرف ہم تک محدود نہ ہو ، پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمِ اسلام کے بارے میں سوچیں۔ اس وقت پوری دنیا میں مسلمان مصائب کا شکار ہیں۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ ”مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں”۔اس ارشادِ مبارکہ کی روشنی میں ہمارا مستقبل عالمِ اسلام کے ساتھ اور عالمِ اسلام کا مستقبل ہمارے ساتھ وابستہ ہے۔ مظلوم خطوں کے مسلمان پاکستان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں اپنے اندرونی اختلافات کو بھلا کر ، متحد ہو کر خود کو مستحکم اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور مظلوم خطوں کے مسلمان ہمارے بھائی ہیں اُن کی ہر ممکن مدد کرنی چاہئے اور ان کو مصائب سے آزادی دلانی چاہئے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بحیثیت ایک قوم متحد ہونے ،عالمِ اسلام کے لئے آواز بلند کرنے اور دنیا کے کسی بھی خطے میں مسلمان پہ ظلم کے خلاف جہاد کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین!