پینٹاگان (اصل میڈیا ڈیسک) امریکہ نے تسلیم کر لیا ہے کہ فوجی انخلا سے چند دن قبل کابل میں کیے جانے والے ڈرون حملے میں دس معصوم شہری ہلاک ہوئے تھے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 29 اگست کو کابل میں ہونے والے ڈرون حملے میں ایک امدادی کارکن سمیت اس کے خاندان کے نو افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سات بچے بھی شامل تھے۔
اس حملے میں ہلاک ہونے والی سب سے کم سن بچی دو سال کی سمعیہ تھی۔
پینٹاگان کا کہنا ہے کہ امریکی انٹیلیجنس نے اس شخص کی کار کی آٹھ گھنٹوں تک نگرانی کی تھی اور ان کا خیال تھا کہ اس کا تعلق افغانستان میں شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ خراسانی گروپ سے تھا۔
یہ جان لیوا حملے افغانستان میں امریکہ کی 20 سال تک جاری رہنے والی جنگ سے قبل آخری کارروائیوں میں سے ایک تھا۔
جنرل کینتھ مکینزی نے اس حملے کو ایک افسوسناک غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ یہ خاندان شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ خراسانی گروپ سے منسلک ہو یا امریکی افواج کے لیے خطرہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک غلطی تھی اور میں اس پر تہہ دل سے معذرت خواہ ہوں۔‘
امریکی تحقیقات کے مطابق اس کار کی نگرانی کرنے والے ڈرون کے ذریعے ایک موقع پر اس گاڑی کی ڈگی میں چند کنٹینرز رکھتے ہوئے دیکھا گیا جن کے بارے میں یہ خیال کیا گیا کہ یہ دھماکہ خیز مواد ہے مگر وہ پانی سے بھرے کنٹینرز تھے۔
تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ امدادی کارکن کی کار شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ خراسانی گروپ سے منسلک کمپاؤنڈ پر دیکھی گئی تھی اور اس کار کی نقل و حمل کابل ایئرپورٹ حملے کے منصوبے کی دیگر انٹیلیجنس اطلاعات کے متعلق تھی۔
یہ حملہ اس گاڑی پر اس وقت کیا گیا تھا جب ضمیری اکمادی نامی امدادی کارکن اپنے اہلخانے کے ہمراہ کابل ایئرپورٹ سے تقریباً تین کلومیٹر دور ایک گھر سے نکل کر سڑک پر سفر کر رہے تھے۔
اس گاڑی پر حملے کے بعد ایک دوسرا دھماکہ ہوا تھا جس پر امریکی حکام کا ابتدائی طور پر کہنا تھا کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ گاڑی میں دھماکہ خیز مواد تھا۔
تاہم تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ ممکنہ طور پر سڑک پر پروپین ٹینک کے باعث دھماکہ ہوا تھا۔
اس حملے میں ہلاک ہونے والوں نے افغانستان چھوڑ کر امریکہ جانے کی درخواست دی ہوئی تھی اور وہ ایئرپورٹ پر بلائے جانے کے لیے ٹیلی فون کال کے منتظر تھے۔
ان افراد میں ہلاک ہونے والوں میں ایک احمد ناصر تھے جو امریکی افواج کے ساتھ بطور متراجم کام کرتے رہے ہیں۔ دیگر افراد میں وہ لوگ بھی شامل تھے ماضی میں مختلف بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام کرتے رہے اور ان کے پاس ویزے تھے اور وہ افغانستان سے انخلا کے دوران امریکہ جانے کی اجازت کے منتظر تھے۔
رامین یوسفی نامی ایک رشتہ دار کا کہنا تھا کہ ’یہ غلط ہے، یہ بہیمانہ حملہ ہے اور یہ غلط اطلاع پر کیا گیا ہے۔