تحریر : ڈاکٹر خاور سلطان پاکستان ایک غریب ملک ہے۔۔پاکستان کے غریب عوام۔۔پاکستان میں غربت۔ ۔یہ فقرے ہر جگہ یونیورسل ٹرتھ کی طرح استعمال ہوتے ہیں۔لیکن میں اس بات سے قطی طور پر متفق نہیں ہوں ۔ہم پاکستانی دنیا کی امیر ترین قوم ہیں۔اللہ کے فضل سے ہمارے ملک میں بے روزگار بھی بھوکا نہیں سوتا، کچھ نہ کرنے والے کو بھی لباس میسر ہے، بے گھر بھی چھت کے بغیر نہیں سوتا۔ یہ ہمارے مضبوط اخوت اور برادرانہ نظام کا نتیجہ ہے۔جو ہمیں اسلام سے ملا ہے۔
اسلام نے ہمیں جو اقتصادی اور معاشرتی نظام دیا ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ کیپیٹلزم ایک ظلم کا نظام ہے لیکن تاریخ انسانیت نے سوشلزم جیسے نظا م کو بھی نا کام ہوتے دیکھا ہے۔لیکن اسلام کااقتصادی نظام کبھی نا کا م نہیںہو سکتا۔ اسلام نے ہمیں زکوٰة وعشراور صدقے کا جو درس دیا ہے اس کی وجہ سے ہمارے ملک میں غریب بھوکا نہیں مرتا ۔اپنی مدد آپ کے تحت بہت سے کام ہو رہے ہیں۔غریب کی بیٹی کی شادی ہو تو رشتہ دار ، اہل محلہ،دوست احباب ایسی رازداری کے ساتھ اس کی مدد کرتے ہیںکہ اس کی عزت نفس کو بھی ٹھیس نہیں پہنچنے دیتے۔ایسے معاملات میں حکومت،کسی فلاحی ادارے یا این جی او کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔چھوٹی عید پر فطرانے کے ذریعے غریب کے بچوں کو نئے کپڑے مل جاتے ہیں۔
بڑی عید پر قربانی نہ کرنے والے کے گھر قربانی کرنے والے سے زیادہ گوشت جمع ہو جاتا ہے۔اسلام نے ہجرت مدینہ کے بعدمہاجرین وانصارکے بھائی چارے کی جو مثال تاریخ عالم کو دی وہ آج بھی ہمارے ملک میں دیکھی جا سکتی ہے۔راقم ورکنگ بائونڈری کے پاس ضلع سیالکوٹ کا رہائشی ہے ۔اس علاقہ میں آئے دن بھارتی گولہ باری کی وجہ سے مقامی لوگ متاثر ہوتے ہیں۔انہیں اپنے گھر بار چھوڑ کر ایسے علاقوں میں پناہ لینی پڑتی ہے جو بارڈر سے ذرا ہٹ کر ہوں۔تو کون ان متاثرہ لوگوں کو پناہ دیتا ہے؟کون ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرتا ہے؟کون ان کی دوبارہ آبادکاری میں مدد کرتا ہے؟حکومت یا کوئی این جی او کچھ نہیں کر رہی۔بلکہ مقامی لوگ جذبہ اخوت کے تحت ان کی مدد کرتے ہیں۔ہر گھر ایک دو متاثرہ خاندان کو پناہ دیتا ہے۔ایسی مثال آپ کوکسی امیر اور ترقی یافتہ ملک میں مشکل ہی سے ملے گی۔کیونکہ یہ ہمارے ملک میںر سول ہاشمیۖ کی تعلیمات کا رنگ ہے۔اور یہ رنگ آپ کو مغرب کے ترقی یافتہ معاشرے میں کہیں نہیں ملے گا۔
جیسے اقبال کہتے ہیں
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیۖ
مغرب کے ترقی یافتہ کہلانے والے معاشروں میں کسی مصیبت ذدہ کی کسی کو کو ئی پرواہ نہیں ہوتی۔سڑک پر گرے پڑے بے ہوش آدمی کے پاس سے لوگ اس طرح گزر رہے ہوتے ہیںجیسے کوئی جانورپڑا ہو۔سڑک پر اگر کوئی ایکسیڈینٹ ہو جائے تواگر ریسکیو ٹیم نہ پہنچے تو زخمی کو کوئی پانی بھی نا پلائے۔فلیٹ میں اکیلا رہنے والا بوڑھا اگر مر جائے توہمسائے کودس پندرہ دن کے بعد بدبو کی وجہ سے پتہ چلے تو چلے۔ کیا یہی امیری ہے ۔۔کیا یہی تہذیب ہے۔۔
اسلام کے دیے ہوئے اس خوبصورت نظام کو چارچاند بر صغیر کا رِچ کلچر لگاتا ہے۔لحاظ مروت اور پیار محبت ہمارے کلچر کا خاصہ ہے۔کسی کے گھر مرگ ہو جائے تو اسے دس دن تک کھانا نہیں پکانے دیا جاتا۔ہمسائے ،اہل محلہ کھانے کا بندوبست کرتے ہیں۔شادی کے مواقع پر رشتہ دار دوست احباب تحائف دیتے ہیںاور کھانے کا خرچہ تو سلامی کے پیسوں سے ہی نکل جاتا ہے۔مریض کی عیادت کے لیے جانے والے مریض کے لیے پھل ،کھانے کی چیز یں اور نقدی وغیرہ پیش کرتے ہیں جس سے مریض کے گھر والوں کی اگر وہ معاشی لحاظ سے کمزور ہوں تو مدد ہو سکتی ہے۔پاکستان میں مہمان نوازی کی یہ حد ہے کہ ہمارے دیہاتی علاقوں میں ان جان پردیسی کو بھی مہمان بنا لیا جاتا ہے۔مساجد ہمارے ہاں بہترین مسافر خانے ہیں۔جہاں کوئی بھی پردیسی قیام کر سکتا ہے اور اس کے طعام کا بندوبست اہل محلہ کر تے ہیں۔اور جس کو کوئی پناہ نہ ملے وہ داتا دربار آجائے۔
Data Darbar Langar
داتا دربار کا ذکر میں نے محاوراًکیا ہے۔ہمارے ملک میں بے شمار ایسی درگاہیں اور اولیاء اکرام کے مزار ہیں جہاں ہر وقت لنگر جاری رہتا ہے۔درگاہوں میں باقاعدہ مسافر خانے بنے ہیں۔روزانہ ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند ان درگاہوں پر حاضری دیتے ہیں۔ نذرانے پیش کرتے ہیں اور درگاہ کے زائرین کو کھانا کھلاتے ہیں۔ یہ خوبصورت نظام دراصل ہماری طاقت ہے۔اگر اس طاقت کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو ہم دنیا کی امیر ترین اور خوشحال ترین قوم بن سکتے ہیں۔پاکستان کے حکمران تو اللہ کا شکر ادا کریں کہ یہاںبہت سے کام لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کر لیتے ہیں اور حکومت پر پریشر نہیں آتا۔اولیاء اکرام کی درگاہوں پر دن کا لاکھوں روپیہ چندہ جمع ہوتا ہے۔اگر حکومت ہر درگاہ کے ساتھ ایک ایک ہسپتال بنا کر اسے درگاہ کے ساتھ منسلک کر دے تو وہ ہسپتال درگاہ کی آمدنی سے باآسانی خودبخود چل سکتا ہے۔
لاہور میں میو ہسپتال کا سالانہ بجٹ اتنا نہیں ہو گا جتنی داتا دربار کی سالانہ آمدن ہے۔اگر حکومت لاہور میںداتا علی ہجویری کے نام پر ایک ہسپتال بنانا چاہے تو عوام کو میو ہسپتال سے بڑا ایک اور ہسپتال مل سکتا ہے۔جس سے ہزاروںغریبوںکو روزانہ مفت علاج معالجے کی سہولت میسر آئے گی۔ داتا صاحب کی تو میں مثال دے رہا ہوںہمارے ہر شہر میںایک دو وسیع الآمدن درگاہ موجود ہے۔لاہور میں داتا صاحب کے علاوہ بی بی پاک دامن کا مزار بھی ہے۔قصور میں بابا بلھے شاہ کا مزار،پاکپتن میںبابا فرید،جھنگ میںحضرت سلطان باہو،سیالکوٹ میں امام علی الحق شہید،نارووال میں پیر جماعت علی لاثانیصاحب ،اسلام آباد میں امام بری اور پیر مہر علی شاہ کے مزار ہیں۔اسی طرح ملک کے ہر ضلع میں کوئی نہ کوئی ایسی درگاہ موجود ہے۔
اگر ان اولیاء اکرام کے نام سے منسوب ایک ایک ہسپتال بنایا جائے توہر ضلع میں ایک ایک نیا ہسپتال بن سکتا ہے جو درگاہ کی آمدنی سے چلے۔ان ہسپتالوںکی وجہ سے اولیاء اکرام کا نام دنیا بھرمیںجاناجائے گا ۔ ہزاروں لوگوں کو روزانہ علاج معالجے کی سہولت میسر آئے گی اور اولیاء اکرام کی روحوں کو راحت ملے گی۔یہ درگاہوں کی آمدنی کا بہترین مصرف ہو گا۔باشعور لوگ نقدی کی صورت میں درگاہوںپرنذرانے کو ترجیح دیں گے اور درگاہوں کی آمدنی میں آضافہ ہو گا۔ میری حکومت سے گذارش ہے کہ اس رائے پر غور کرے اور عملی جامہ پہنا کر عوام کی دعا لے۔اولیاء اکرام کی روح کو راحت پہنچائے۔اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرے۔