آسٹریلیا (اصل میڈیا ڈیسک) آسٹریلوی فوج کے ایک اعلی عہدیدار نے تسلیم کیا ہے کہ ملکی فوج افغانستان میں مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث رہی ہے۔ آسٹریلیا نے پہلی بار افغانستان میں تعینات اپنے فوجیوں پر جنگی جرائم جیسے الزامات کو تسلیم کیا ہے۔
آسٹریلیائی فوج کے اعلی عہدیدار جنرل آنگس کیمبیل نے جمعرات کو اعتراف کیا کہ اس بات کے کافی پختہ ثبوت و شواہد ہیں کہ افغانستان میں تعینات ان کے فوجیوں نے کم سے کم 39 ایسے افغان شہریوں کو غیر قانونی طور پر ہلاک کیا، جن کا لڑائی سے کچھ بھی لینا دینا نہیں تھا۔
اس معاملے میں فوج اندرونی طور پر گزشتہ چار برسوں سے تفتیش کر رہی تھی، جس سے یہ بات سامنے آئی ہے۔ اسی تفتیشی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ”میں آسٹریلیا کی دفاعی فورسز کی طرف سے افغان عوام کے ساتھ ہونے والی کسی بھی غلطی کے لیے بلا شرط، خلوص کے ساتھ معافی مانگتا ہوں۔”
آسٹریلیائی فوج کے انسپکٹر جنرل افغانستان میں آسٹریلیائی فوج پر جنگی جرائم سے متعلق الزامات کی تفتیش کر رہے تھے۔ آسٹریلوی فوجیوں کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات کا تعلق ان کی افغانستان میں سن دو ہزار پانچ سے سن دو ہزار سولہ کے دوران تعیناتی سے ہے۔
مسٹر کیمبل کے مطابق انکوائری میں پایا گیا ہے کہ کچھ فوجی ملٹری کے تعلق سے پیشہ ورانہ اقدار کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب اگلا قدم ان فوجیوں کے خلاف عدالتی چارہ جوئی ہو گی جو جنگی جرائم میں مرتکب ہوئے ہیں۔
اس بات کے پختہ شواہد پائے گئے کہ آسٹریلوی فوج میں اسپیشل فورسز کے 25 فوجی قیدیوں، کسانوں اور ان جیسے دیگر نہتے عام شہریوں کی ہلاکتوں میں ملوث ہوئے۔
غیر قانونی طور عام شہریوں کو ہلاک کرنے کے ایسے 23 واقعات کے بھی پختہ شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 39 عام افغان شہری مارے گئے۔ ہلاکتوں کا یہ سلسلہ 2009 ء میں شروع ہوا لیکن زیادہ تر افراد کو 2012ء اور 2013ء کے درمیان ہلاک کیا گیا۔
ایسے بھی کئی واقعات کا انکشاف ہوا ہے کہ فوجیوں نے پہلی بار کسی کو ہلاک کرنے کا اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے قیدیوں کو ہی گولی مار دی اور پھر لڑائی میں ہلاک کرنے کے جعلی ثبوت کا انتظام کر لیا۔
انکوائری کے مطابق ہلاکتوں کے ان واقعات میں ایسا کوئی بھی ایک واقعہ ایسا نہیں تھا جو لڑائی کے دوران پیش آیا ہو، یا پھر حالات ایسے رہے ہوں جہاں ان فوجیوں کی نیت غیر واضح، متذبذب رہی ہو یا پھر ایسا غلطی سے ہو گیا ہو۔
جن فوجیوں سے بھی اس بارے میں پوچھ گچھ کی گئی وہ سب میدان جنگ کے اصول و ضوابط یا پھر لڑائی کے آداب و طوار سے اچھی طرح واقف تھے۔ حیرت تو یہ ہے کہ بعض فوجی جو ان حرکتوں میں ملوث رہے ہیں وہ اب بھی آسٹریلیائی فوج میں کام کر رہے ہیں۔
اس تفتیشی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اس حوالے سے 19 افراد سے قتل جیسے مجرمانہ جرائم میں ملوث ہونے کے لیے مزید تفتیش ہونی چاہیے۔ کیمبل کا کہنا تھا، ”میں نے انسپکٹر جنرل کی تفتیشی رپورٹ کو تسلیم کر لیا ہے اور ان کی جانب سے کارروائی کے لیے جو 143 جامع سفارشات پیش کی گئی ہیں ان پر عمل کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔”
آسٹریلوی ڈیفنس فورسز (اے ڈی ایف) کا کہنا ہے کہ گزشتہ چار سال کے دوران اس قسم کے متعدد الزامات کی اندرونی طور پر تفتیش ہوتی رہی ہے۔ آسٹریلوی فوجی نے انکشاف کیا تھا کہ اس ضمن میں 55 واقعات میں تحقیقات کی گئیں، جن میں 336 گواہوں سے شواہد یا ثبوت جمع کیے گئے۔
نیو یارک کے ٹوئن ٹاورز پر حملے کے بعد جب امریکا نے 2002ء میں افغانستان پر حملہ کیا تو اتحادی کے طور پر آسٹریلیا نے بھی افغانستان میں اپنے فوجی تعینات کیے تھے۔ افغانستان میں کُل 39000 آسٹریلوی فوجیوں نے خدمات انجام دیں جن میں سے 41 مارے گئے تھے۔
جنگی جرائم سے متعلق آسٹریلوی فوج کی خفیہ دستاویزات ”افغان فائلز” کسی طرح لیک ہو گئی تھیں، جنہیں بعد میں آسٹریلیا کے سرکاری نشریاتی ادارے اے بی سی نے نشر کر دیا تھا۔ اسی سے اس بات کا انکشاف ہوا تھا کہ آسٹریلوی فوج نے افغانستان میں نہتے عام شہریوں اور بچوں کو ہلاک کیا۔
اس پر پہلے آسٹریلیا کی پولیس نے ان صحافیوں کے خلاف ہی مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کی جنہوں نے یہ خفیہ دستاویزات حاصل کی تھیں اور پھر بعد میں یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا۔
اس سے قبل آسٹریلوی وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے اپنی افواج کا مجموعی طور پر دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جن میں فوجی اہلکار مطلوبہ ”توقعات اور معیار پر پورے نہیں اترے”۔ اس موقع پر انہوں نے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی طرف سے جنگی جرائم کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک اسپیشل پراسیکیوٹر نامزد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
آسٹریلیا میں ایسے فوجیوں پر مقدمہ چلا کر سزا دینے کی حکومت کی کوشش کی ایک وجہ بین الاقوامی جنگی جرائم سے بھی بچنا ہے۔ آسٹریلیا نے 2013 ء میں افغانستان میں تعینات اپنے بیشتر فوجیوں کو واپس بلا لیا تھا۔