آسٹریا : یورپی ملک آسٹریا میں کارل نیہامیر ملک کے نئے چانسلر ہوں گے۔ وہ اس منصب کے ساتھ ساتھ قدامت پسند سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے سربراہ بھی ہوں گے۔
آسٹریا میں دو ماہ قبل سیباستیان کُرس کے چانسلر شپ سے مستعفی ہونے کے بعد سے ابھی تک سیاسی استحکام مفقود ہے۔ نوجوان چانسلر کے بعد الکزانڈر شالن بیرگ چانسلر بنے تھے اور انہوں نے بھی دو ماہ تک یہ منصب سنبھالا اور پھر استعفیٰ دے دیا۔
اب آسٹرین پیپلز پارٹی کی ایگزیکٹو کونسل نے جمعہ تین نومبر کو اپنے اجلاس میں سابق وزیر داخلہ کارل نیہامیر کو چانسلر کے منصب کے لیے نامزد کیا ہے۔ انہیں پارٹی کی قیادت بھی سونپ دی گئی ہے۔ ان کی قیادت کی توثیق پارٹی کانگریس میں کی جائے گی۔
کارل نیہامیر نے ابھی چانسلر کے منصب کا حلف نہیں اٹھایا اور اس کا فیصلہ ملکی صدر الیکزانڈر فان ڈیئر بیلین نے کرنا ہے۔
آسٹریا کے نئے چانسلر ایک پروفیشنل فوجی رہ چکے ہیں۔ انچاس سالہ نیہامیر ملکی فوج میں لیفٹیننٹ کے عہدے پر رہے تھے۔ فوج کو خیرباد کہنے کے بعد وہ کئی برسوں سے پیپلز پارٹی کے سرگرم کارکنان میں شامل رہے ہیں۔
وہ غیر قانونی مہاجرت کے سخت خلاف ہیں اور اس بابت واضح طور پر سخت موقف رکھتے ہیں۔ وہ بنیاد پرستانہ اسلام کے حوالے سے بھی خاصے شدید نکتہٴ نظر کے حامل ہیں۔
بطور وزیر داخلہ ان کی سب سے اہم ذمہ داری اپنے ملکی کی خفیہ یا انٹیلیجنس ایجنسی کو کھڑا کرنا تھا۔ ان کے اس منصوبے پر مخالف سیاسی حلقے کئی مرتبہ کڑی تنقید کر چکے ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ کارل نیہامیر سابق چانسلر سیباستیان کرس کے وسیع حلقے میں شمار کیے جاتے ہیں لیکن انتہائی قریبی رفقاء کے دھڑے میں شامل نہیں تھے۔
آسٹرین سیاست کے ایک ماہر تھوماس ہوفر کے مطابق سیباستیان کُرس کے مقابلے میں نیہامیر اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ بہتر تعلقات رکھتے ہیں اور یہ بات ان کی چانسلری کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
کرپشن الزامات کے تناظر میں آسٹرین دفتر استغاثہ کے اہلکاروں نے رواں برس بدھ چھ اکتوبر کو حکومتی جماعت پیپلز پارٹی سے وابستہ مختلف مقامات پر کئی چھاپے مارے تھے۔ ان مقامات میں ملکی چانسلر اور پارٹی ہیڈکوارٹرز بھی شامل تھے۔
مالی بدعنوانی کے اسکینڈل کا تعلق سن 2016 سے سن 2018 کے درمیانی عرصے میں وزارتِ خزانہ کے معاملات میں پائی جانے والی مالی بےقاعدگیاں ہیں۔ ایسا خیال کیا گیا ہے کہ اس دوران ہونے والی مالی خردبرد کا تعلق رائے عامہ کے جائزوں کو پارٹی کے حق میں ہموار کرنے سے تھا۔
ان کرپشن الزمات کے تناظر میں سیباستیان کُرس نے چانسلر شپ سے استعفیٰ دینے کے بعد سیاست کو بھی فی الحال خیر باد کہہ رکھا ہے۔
سیاست سے دستبرداری نے آسٹرین سیاست اور پیپلز پارٹی پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن پارٹیاں اب نئے پارلیمانی انتخابات کا مطالبہ بھی کرنے لگی ہیں۔