ویانا (اصل میڈیا ڈیسک) آسٹریا میں وفاقی چانسلر کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والا سیاسی بحران بظاہر ختم ہو گیا ہے۔ یہ اعلان وفاقی صدر آلیکسانڈر فان ڈئر بیلن نے کیا۔ نئے قائدِ حکومت آلیکسانڈر شالن برگ ہیں۔
ویانا میں چانسلر کے عہدے پر فائز سباستیان کُرس نے اپنے خلاف کرپشن کے الزامات کی وجہ سے جاری تفتیش کے تناظر میں استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان کے مستعفی ہونے سے سیاسی بحران پیدا ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ اس سیاسی بحران کی وجہ گزشتہ ہفتے کےدوران شروع ہونے والی وہ چھان بین تھی، جس کا تعلق پیپلز پارٹی کی جانب سے غیر ضروری مالی ادائیگیاں ہیں جو ملکی خزانے سے کی گئی تھیں۔
ان کے چانسلر کے منصب سے مستعفی ہونے کی وجہ مخلوط حکومت میں شامل گرین پارٹی کا غیر معمولی دباؤ خیال کیا گیا ہے۔
کم عمری میں ایک اہم یورپی ملک آسٹریا کے چانسلر کے منصب پر بیٹھنے سے قبل وزارتِ خارجہ کا قلمدان سنبھالنے والے سیاستدان سیباستیان کُرس کو براعظم یورپ میں بہت پذیرائی مل چکی ہے۔ ان کی پہلی حکومت بطور چانسلر سن 2019 میں ایک اسکینڈل کی نذر ہو گئی تھی اور دوسری کا انجام بھی بہتر نہیں رہا۔ ان کا تعلق دائیں جانب کی مرکز کی طرف جھکاؤ رکھنے والی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی سے ہے۔
اب ان کی جگہ چانسلر کا منصب سنبھالنے والے باون سالہ آلیکسانڈر شالن برگ ہیں اور ان کا تعلق بھی اسی پارٹی سے ہے۔ شالن برگ کے چانسلر بننے کے بعد اب وزارتِ خارجہ کا منصب مائیکل لِنہارٹ کو سونپ دیا گیا ہے۔ لنہارٹ ایک تجربہ کار سفارت کار ہیں اور اس وقت فرانس میں آسٹریا کے سفیر ہیں۔
آسٹرین پیپلز پارٹی کو اپنی مخلوط حکومت میں شامل جونیئر پارٹنر گرین پارٹی کے ساتھ حکومت کا عوامی مینڈیٹ سن 2024 تک حاصل ہے۔
کرپشن الزامات کے تناظر میں آسٹرین دفتر استغاثہ کے اہلکاروں نے گزشتہ بدھ چھ اکتوبر کو پیپلز پارٹی سے وابستہ مختلف مقامات پر کئی چھاپے مارے تھے۔ ان مقامات میں ملکی چانسلر اور پیپلز پارٹی کا ہیڈکوارٹرز بھی شامل تھے۔
مالی بدعنوانی کے اسکینڈل کا تعلق سن 2016 سے سن 2018 کے درمیانی عرصے میں وزارتِ خزانہ کے معاملات پائی جانے والی بےقاعدگیاں ہیں۔ ایسا خیال کیا گیا ہے کہ اس دوران ہونے والی مالی خردبرد کا تعلق رائے عامہ کے جائزوں کو پارٹی کے حق میں ہموار کرنے سے تھا۔
دفترِ استغاثہ کا کہنا ہے کہ ملکی خزانے سے حاصل کی گئی رقوم کو پارٹی کے مفاد میں استعمال کیا گیا جو درست فعل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ استغاثہ کے مطابق ایک نامعلوم میڈیا کمپنی کو ادائیگیاں کی گئی ہیں۔ اس تناظر میں انگلیاں آسٹریا کے ایک اخبار دا آسٹرائش (Oesterreich) کی جانب ہیں اور اس اخبار کے دفتر پر بھی چھاپے مارے جا چکے ہیں۔
آسٹرین صدر آلیکسانڈر فان ڈئر بیلن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بحران کے خاتمے کے ساتھ ملک میں سیاسی طور پر سب کچھ ابھی دوبارہ ٹھیک نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے سیاسی رہنماؤں پر اعتماد کو شدید دھچکا لگا ہے۔ صدر فان ڈئر بیلن نے ایک روز قبل تھا کہ وہ پیر کے روز سیباستیان کُرس حکومت کے وزیر خارجہ کے فرائض انجام دینے والے آسٹرین پیپلز پارٹی کے رہنما آلیکسانڈر شالن برگ سے نئے وفاقی چانسلر کے طور پر حلف لیں گے۔