وہ بے ارادہ سہی، تتلیوں میں رہتا ہے کہ میرا دل تو مری مٹھیوں میں رہتا ہے میں اپنے ہاتھ سے دل کا گلا دبا دوں گی مرے خلاف یہی سازشوں میں رہتا ہے اڑان جس کی ہمیشہ سے جارحانہ رہی وہ آج میری طرح بے پروں میں رہتا ہے الائو بن کے دسمبر کی […]
وصال رُت کی یہ پہلی دستک ہی سرزنش ہے کہ ہجر موسم نے رستے رستے سفر کا آغاز کیا تمہارے ہاتھوں کا لمس جب بھی مری وفا کی ہتھیلیوں پر حنا بنے گا تو سوچ لوں گی رفاقتوں کا سنہرا سورج غروب کے امتحان میں ہے ہمارے باغوں سے گر کبھی تتلیوں کی خوشبو گزر […]
اک برس کے عرصے میں چار چھ ملاقاتیں شام کی حویلی میں صبح کے مہکنے کی بے یقین سی باتیں کچھ عذاب ماضی کے گفتگو کا موضوع تھے کچھ سوال خوابوں کے کچھ جواب آنکھوں کے مشترک سے جذبوں کے آئینوں میں دیکھے تھے آئینے تو سچے تھے اور وہ ملاقاتیں چار چھ ملاقاتیں جن […]
تم نے یہ کہہ دیا کہ محبت نہیں ملی مجھ کو تو یہ بھی کہنے کی مہلت نہیں ملی نیندوں کے دیس جاتے کوئی خواب دیکھتے لیکن دیا جلانے سے فرصت نہیں ملی تجھ کو تو خیر شہر کے لوگوں کا خوف تھا اور مجھ کو اپنے گھر سے اجازت نہیں ملی پھر اختلافِ رائے […]
ہوا کو خوشبو کو ساتھ رکھنا جو آ گیا ہے اب اس کی مرضی کہیں بھی ٹھہرے کسی بھی در سے بغیر دستک ، بغیر آہٹ خاموشیوں کا لباس پہنے فصیل بینائی کی حدود سے اداس اور منتظر دلوں سے مثالِ شمشیر چلتی جائے ہوا کو خوشو کو ساتھ رکھنا جو آ گیا ہے مفاہمت […]
ہمیں کس ہاتھ کی محبوب ریکھائوں میں رہنا تھا کس دل میں اترنا تھا چمکنا تھا کن آنکھوں میں کہاں پر پھول بننا تھا تو کب خوشو کیصورت کوئےجاناں سے گزرنا تھا سمجھ میں کچھ نہیں آتا ہمیں کس قریہ آب و ہوا کے سنگ رہنا تھا کہاں شامیں گزرنا تھیں کہاں مہتاب راتوں میں […]
تتلیاں، جگنو سبھی ہوں گے مگر دیکھے گا کون ہم سجا بھی لیں اگر دیوار و در دیکھے گا کون اب تو ہم ہیں جاگنے والے تری خاطر یہاں ہم نہ ہوں گے تو ترے شام و سحر دیکھے گا کون جس کی خاطر ہم سخن سچائی کے رستے چلے جب وہی اس کو نہ […]
تری خوشبو نہیں ملتی، ترا لہجہ نہیں ملتا ہمیں تو شہر میں کوئی ترے جیسا نہیں ملتا یہ کیسی دھند میں ہم تم سفر آغاز کر بیٹھے تمہیں آنکھیں نہیں ملتیں ہمیں چہرہ نہیں ملتا ہر اک تدبیر اپنی رائیگاں ٹھہری محبت میں کسی بھی خواب کو تعبیر کا رستہ نہیں ملتا بھلا اس کے […]
صبح نہیں ہو گی کبھی، دل میں بٹھا لے تو بھی خود کو برباد نہ کر جاگنے والے تو بھی میں کہاں تک تری یادوں کے تعاقب میں رہوں میں جو گم ہوں تو کبھی میرا پتہ لے تو بھی اک شبستانِ رفاقت ہو ضروری تو نہیں دشتِ تنہائی میں آ جشن منا لے تو […]
سب اپنی ذات کے اظہار کا تماشا ہے وگرنہ کون یہاں پانیوں پہ چلتا ہے تمام عمر کی نغمہ گری کے بعد کھلا یہ شہر اپنی سماعت میں سنگ جیسا ہے اسے بھی ڈھنگ نہ آئے گا بات کرنے کا مجھے بھی عرضِ ہنر کا کہاں سلیقہ ہے مرا وجود ہے اور بے شمار آنکھیں […]
رکتا بھی نہیں ٹھیک سے چلتا بھی نہیں ہے یہ دل کہ ترے بعد سنبھلتا بھی نہیں ہے یہ شہر کسی آئینہ کردار بدن پر الزام لگاتے ہوئے ڈرتا بھی نہیں ہے اک عمر سے ہم اس کی تمنا میں ہیں بے خواب وہ چاند جو آنگن میں اترتا بھی نہیں ہے پھر دل میں […]
پرانی کتاب میں رکھی تصویر سے باتیں آج برسوں کے بعد دیکھا ہے اب بھی آنکھوں کا رنگ گہرا ہے اور ماتھے کی سانولی سی لکیر دل میں کتنے دیے جلاتی ہے تیری قامت کے سائے کی خوشبو گفتگو میں بہار کا موسم بے سبب اعتبار کا موسم کیوں مجھے سارے ڈھنگ یاد رہے کتنی […]
روشنی دل کے دریچوں میں بھی لہرانے دے اس کو احساس کے آنگن میں اتر جانے دے حبس بڑھ جائے تو بینائی چلی جاتی ہے کھڑکیاں کھول کے رکھ، تازہ ہوا آنے دے تیرے روکے سے وہ بد عہد کہاں رُکتا ہے پائوں چھونے سے تو بہتر ہے اسے جانے دے جن میں اب تک […]
پچھلے سال کی ڈائری کا آخری ورق کوئی موسم ہو وصل و ہجر کا ہم یاد رکھتے ہیں تری باتوں سے اس دل کو بہت آباد رکھتے ہیں کبھی دل کے صحیفے پر تجھے تصویر کرتے ہیں کبھی پلکوں کی چھائوں میں تجھے زنجیر کرتے ہیں کبھی خوابیدہ شاموں میں کبھی بارش کی راتوں میں […]
نجانےکن غم کے جگنوئوں کو چھپائے پھرتی ہے مٹھیوںمیں کئی دنوں سے اداس رہتی ہے ایک لڑکی سہیلیوں میں کبھی تویوں ہومحبتوں کی مٹھاس لہجوں میں گھول دیکھیں گزرتی جاتی ہے عمر ساری اداس باتوں کی تلخیوں میں ہماری خواہش کےراستوں میںمہک رہی ہے وفا کی خوشبو محبتوں نے بدل دیے ہیں تمام منظر اداسیوں […]
نہ کوئی خواب نہ سہیلی تھی اس محبت میں، میں اکیلی تھی عشق میں تم کہاں کے سچے تھے جو اذیت تھی ہم نے جھیلی تھی یاد اب کچھ نہیں رہا لیکن ایک دریا تھا یا حویلی تھی جس نے اُلجھا کے رکھ دیا دل کو وہ محبت تھی یا پہیلی تھی میں ذرا سی […]
نام لے لے کر نہ میرا شہر کی نظروں میں آ مجھ سے ملناہے تو میرے دل کےصحرائوں میں آ اس سفر میں دیکھ گھل جاتا ہے مٹی کا بدن مجھ سے ملنےکی نہ خواہش کر نہ برساتوں میں آ لوگ تجھ کو گنگنائیں میری خواہش کی طرح اک اچھوتے شعر کی صورت مری غزلوں […]
محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا جو میرے حصے میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا جلائے رکھونگی صبح تک میںتمہارے رستوںمیں اپنی آنکھیں مگر کہیں ضبط ٹوٹ جائے تو بارشیں بھی شمار کرنا جو حرف لوحِ وفا پہ لکھے ہوئے ہیں ان کو بھی دیکھ لینا جو رائیگاں ہو گئیں […]
مرے خلاف ہوا ہے تو اس کا ڈر بھی نہیں یہ جانتے ہیں کہ وہ اتنا معتبر بھی نہیں تجھے بھی دیکھ لیا شامِ وعدئہ آخر اب اعتبار ہمیں تیرے نام پر بھی نہیں یہاں تو سانس بھی لینا محال لگتا ہے ہم اس فصیل کے قیدی ہیں جس میں دَر بھی نہیں بہت شدید […]
مہتاب رتیں آئیں تو کیا کیا نہیں کرتیں اس عمر میں تو لڑکیاں سویا نہیں کرتیں کچھ لڑکیاں انجامِ نظر ہوتے ہوئے بھی جب گھر سے نکلتی ہیں تو سوچا نہیں کرتیں یاں پیاس کا اظہا رملامت ہے گناہ ہے پھولوں سے کبھی تتلیاں پوچھا نہیں کرتیں آنگن میں گھنے پیڑ کے نیچے تری یادیں […]
اے دلِ بے قرار چپ ہو جا جا چکی ہے بہار چپ ہو جا اب نہ آئیں گے روٹھنے والے دیدہ اشکبار! چپ ہو جا جا چکا ہے کاروان لالہ و گل اڑ رہا ہے غبار چپ ہو جا چھوٹ جاتی ہے پھول سے خوشبو روٹھ جاتے ہیں یار، چپ ہو جا ہم فقیروں کا […]
مانا وادئی عشق میں پائوں اندھا رکھنا پڑتا ہے لیکن گھر کو جانے والا رستہ رکھنا پڑتا ہے تنہائی وہ زہر بجھی تلوار ہے جس کی دہشت سے بعض اوقات تو دشمن کو بھی زندہ رکھنا پڑتا ہے جبر کی جتنی اونچی چاہو تم دیوار اٹھا لینا لیکن اس دیوار میں اک دروازہ رکھنا پڑتا […]
کس کو بھاتی رہی رات بھر چاندنی جی جلاتی رہی رات بھر چاندنی ٹمٹماتے رہے حسرتوں کے دیے مسکراتی رہی رات بھر چاندنی اک حسیں جسم کی طرح آغوش میں کسمساتی رہی رات بھر چاندنی اشک پیتے رہے ہم کسی اور کو مے پلاتی رہی رات بھر چاندنی ساغر صدیقی
پھول چاہے تھے مگر ہاتھ میں آئے پتھر ہم نے آغوشِ محبت میں سلائے پتھر وحشتِ دل کے تکلف کی ضرورت کے لیے آج اُس شوخ نے زلفوں میں سجائے پتھر ان کے قدموں کے تلے چاند ستارے دیکھے اپنی راہوں میں سلگتے ہوئے پتھر میں تری یاد کو یوں دل میں لیے پھرتا ہوں […]