ہجر راتوں کے زمانے آئے اب میرے ہوش ٹھکانے آئے لبِ دریا کھڑا یہ سوچتا ہوں کاش تو پیاس بجھانے آئے پہلے خواہش سی بدن میں جاگے پھر تیری یاد ستانے آئے لوگ کہتے ہیں شیخ جی تم کو رشتے ناظے نہ نبھانے آئے امجد شیخ
اس بُتکدے میں تُوجوحسیں تر لگا مجھے اپنے ہی اک خیال کا پیکر لگا مجھے جب تک رہی جگر میں لہو کی ذرا سی بوند مٹھی میں اپنی، بند سمندر لگا مجھے مرجھا گیا جو دل میں اُجالے کا سرخ پھول تاروں بھرا یہ کھیت بھی بنجر لگا مجھے اب یہ بتا کہ روح کے […]
خاموشی بول اٹھے، ہر نظر پیغام ہو جائے یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے ستارے مشعلیں لیکر مجھےبھی ڈھونڈنے نکلیں میں رستہ بھول جائوں،جنگلوں میںشام ہوجائے میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں خود اپنی چاپ سُن کر لرزہ براندام ہو جائے مثال ایسی ہے اس دورِ خرد کے […]
پھر سن رہا تھا گزرے زمانے کی چاپ کو بھولا ہوا تھا دیر سے میں اپنے آپ کو رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس, میں اتنا نہ تیز کیجیے ڈھولک کی تھاپ کو اشکوں کی ایک نہر تھی جو خشک ہو گئی کیوں کر مٹائوں دل سے تری غم کی چھاپ کو کتنا ہی […]
وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت کسی کے سر پہ کبھی ٹوٹ کر گرا ہی نہیں اس آسماں نے ہوا میں قدم جمائے بہت نہ جانے رُت کا تصرف تھا یا نظر کا فریب کلی وہی تھی مگر رنگ جھلملائے بہت ہوا کا رخ […]
میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں مرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں صحرا کی بود و باش ہے اچھی نہ کیوں لگے سوکھی ہوئی گلاب کی ٹہنی گلاس میں چمکے نہیں نظر […]
جہاں تلک یہ صحرا دکھائی دیتا ہے مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے نہ اتنی تیز چلے، سرپھری ہوا سے کہو شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے برا نہ مانیے لوگوں کی عیب جوئی کا انہیں تو دن کا بھی سایہ دکھائی دیتا ہے یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے […]
کنارے آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی گماں گزرتا ہے، یہ شخص دوسرا ہے کوئی ہوا نے توڑ کے پتا زمیں پہ پھینکا ہے کہ شب کی جھیل میں پتھر گرا دیا ہے کوئی بٹا سکے ہیں پڑوسی کسی کا درد کبھی یہی بہت ہے کہ چہرے سے آشنا ہے کوئی درخت راہ […]
خزاںکےچاندنے پوچھایہ جھک کےکھڑکی میں کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں؟ یہ آدمی ہیں کہ سائے ہیں آدمیت کے گزر ہوا ہے مرا کس اُجاڑ بستی میں؟ جھکی چٹان، پھسلتی گرفت ، جھولتا جسم میں اب گرا ہی گرا تنگ و تار گھاٹی میں زمانے بھر سے نرالی ہے آپ کی منطق ندی […]
وہی جھکی ہوئی بیلیں، وہی دریچہ تھا مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا میں لوٹ آیا ہوں خاموشیوں کے صحرا سے وہاں بھی تیری صدا کا غبار پھیلا تھا قریب تر رہا تھا بطوں کا اک جوڑا میں آبِ جو کے کنارے اُداس بیٹھا تھا شبِ سفر تھی، قبا تیرگی کی پہنے […]
شفق جو روئے سحر پر گلال ملنے لگی یہ بستیوں کی فضا کیوں دھواں اُگلنے لگی اسی لیے تو ہوا رو پڑی درختوں میں ابھی میں کِھل نہ سکا تھا کہ رُت بدلنے لگی اُتر کے نائو سے بھی کب سفر تمام ہوا زمیں پہ پائوں دھرا تو زمین چلنے لگی کسی کا جسم اگر […]
آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے جتنے اس پیڑ کے پھل تھے، پسِ دیوار گرے ایسی دہشت تھی فضائوں میں کھلے پانی کی آنکھ جھپکی بھی نہیں، ہاتھ سے پتوار گرے مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں جس طرح سائیہ دیوار پہ دیوار گرے تیرگی چھوڑ گئے […]
ہر قدم پر نت نئےسانچےمیںڈھل جاتے ہیں لوگ دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ کسلیے کیجیے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش جبکہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ کتنے سادہ دل ہیں، اب بھی سن کے آواز جرس پیش و پس سے بےخبرگھرسےنکل جاتےہیں لوگ اپنے سائے سائے سر نیوڑھائے […]
ازل سے ایک عذاب قبول و رد میں ہوں کبھی خدا تو کبھی ناخدا کی زد میں ہوں خدا نہیں ہوں مگر زندہ ہوں خدا کی طرح میں اک اکائی کے مانند ہر عدد میں ہوں میں اپنا آپ ہی خالق ہوں آپ ہی مخلوق میں اپنی حد سے گزر کر بھی اپنی حد میں […]
جو آگ نہ تھی ازل کے بس میں وہ آگ ہے میری دسترس میں قدرت سے نبرد آزما ہوں ہر چند ہوں جسم کے قفس میں میں آج ہوں، کل نہیں ہوں لیکن صدیاں ہیں مرے نفس نفس میں وہ لفظ ہوں کاتبِ ازل کا اترا جو ہزار ہا برس میں ہر دور میں حرفِ […]
جب تک زمیں پہ رینگتے سائے رہیں گے ہم سورج کا بوجھ سر پر اٹھائے رہیں گے ہم کھل کر برس ہی جائیں کہ ٹھنڈی ہو دل کی آگ کب تک خلا میں پائوں جمائے رہیں گے ہم جھانکے گا آئینوں سے کوئی اور جب تک ہاتھوں میں سنگ ریزے اٹھائے رہیں گے ہم اک […]
اپنا انداز جنوں سب سے جُدا رکھتا ہوں میں چاک دل، چاک گریباں سے سوا رکھتا ہوں میں غزنوی ہوں اور گرفتار خم زلف ایاز بت شکن ہوں اور دل میں بت کدہ رکھتا ہوں میں ہے خود اپنی آگ سے ہر پیکر گل تابناک لے ہوا کی زد پہ مٹی کا دیا رکھتا ہوں […]
آج کی شب بھی ہو ممکن جاگتے رہنا کوئی نہیں ہے جان کا ضامن جاگتے رہنا قزاقوں کے دشت میں جب تک قافلہ ٹھہرے قافلے والو، رات ہو یا دن، جاگتے رہنا تاریکی میں لپٹی ہوئی پر ہول خاموشی اس عالم میں کیا نہیں ممکن، جاگتے رہنا آہٹ آہٹ پر جانے کیوں دل دھڑکتا ہیں […]
کب تک رہوں میں خوف زدہ اپنے آپ سے اک دن نکل نہ جائوں ذرا اپنے آپ سے جسکی مجھے تلاش تھی، وہ تو مجھ ہی میں تھا کیوں آج تک میں دور رہا اپنے آپ سے دنیا نے تجھ کو میرا مخاطب سمجھ لیا محو سخن تھا میں تو دینے اپنے آپ سے تجھ […]
ابھی ٹوٹا ہے اک تارا تُو شاید لوٹ کر آئے سجا رکھا ہے گھر سارا تُو شاید لوٹ کر آئے بجز خاموشیوں تنہائیوں کے کچھ نہیں باقی نظر پھر بھی ہے آوارہ تُو شاید لوٹ کر آئے مسافر لوٹ کر آتے نہیں ہیں راہِ منزل پہ میں اُمیدوں کا بنجارہ تُو شاید لوٹ کر آئے […]
اداس راتیں ہیں خواب سارے اجڑ چکے ہیں ہے آنکھ ویراں کہ سب نظارے اجڑ چکے ہیں مری زمیں پہ گلوں کے چہرے جھلس گئے ہیں مرے فلک کے وہ چاند تارے اجڑ چکے ہیں جو میرے آنسو شمار کرتے جو پیار کرتے وفا کے پیکر سبھی سہارے اجڑ چکے ہیں اب آنکھ دریا میں […]
ظلمتوں میں ازسرِ نو کیوں بلاتے ہو مجھے مہربانوں کس لیے اتنا ستاتے ہو مجھے راستے میں نے دکھائے ہیں اجالوں کے تمہیں نقش ہوں میں روشنی کا کیوں مٹاتے ہو مجھے قافلوں کو منزلوں کی سمت کرتا ہوں رواں بے جہت چلنے کی باتیں کیوں سناتے ہو مجھے میں کھڑا ہوں ایک مقصد سے […]
راستے میرے قدموں سے لپٹے رہے تیرے کوچے کا منظر ہچکتا رہا تیری تنہائیاں بھی بلاتی رہیں تیرے شہرِ وفا سے نکل ہی گیا میں اندھیرے کے ٹھنڈے سفر کی طرح اب تمازت سے احساس جلنے لگا درد سا بھر گیا ہے مری سوچ میں اشک بے چینیوں میں سمٹنے لگے تیرے شہرِ وفا سے […]
مرے ندیم، مرے ہم نفس، مرے ہمدم میں تیرے درد کی تفسیر کس طرح لکھوں میں تیرے شہر کو زندان یا قفس لکھوں تری خاموشیوں کو درد یا گھٹن لکھوں یہ شہر جس کی پناہوں میں تیرا مسکن ہے یہاں تو کوئی جزیرہ نہیں محبت کا کہ جس میں کوئی پرندہ کبھی ٹھہر پائے جو […]