ہر قدم کی اپنی اپنی چال ہے آدمی لڑھکا ہوا فٹ بال ہے خستہ و برگشتہ و بد حال ہے یہ ھماری پیاری اصغر مال ہے چہرہ بنگلوں کا بظاہر لال ہے بیچ سے دیکھو تو پتلا حال ہے اپنے اپنے مچھروں کی جھیل ہے اپنی اپنی مکھیوں کا ٹال ہے بنگھنیں اس پر بچھا […]
اگرچہ پار کاغذ کی کبھی کشتی نہیں جاتی مگر اپنی یہ مجبوری کہ خوش فہمی نہیں جاتی خدا جانےگریباں کس کے ہیں اورہاتھ کس کے ہیں اندھیرے میں کسی کی شکل پہچانی نہیں جاتی مری خواہش ہے دنیا کو بھی اپنے ساتھ لے آئوں بلندی کی طرف لیکن کبھی پستی نہیں جاتی خیالوں میں ہمیشہ […]
موج کا منجدھار سے رشتہ ہے کیا نائو کا پتوار سے رشتہ ہے کیا اپنے اندر کے گرفتاروں سے پوچھ روزنِ دیوار سے رشتہ ہے کیا کوئی بھی لمحہ کبھی رکتا نہیں وقت کا رفتار سے رشتہ ہے کیا چھائوں میں بیٹھے ہوئوں کو کیا خبر دھوپ کا دیوار سے رشتہ ہے کیا ڈوبتی شب […]
اتر چکے ہو سمندر میں حوصلہ رکھنا ہوا چلے نہ چلے بادباں کھلا رکھنا کبھی نہ جلتے چراغوں کا سلسلہ ٹوٹے جو ایک بجھنے لگے ساتھ دوسرا رکھنا یہی کمال ہے بارش میں بھیگتے رہنا اور اپنے جسم کی مٹی کو بھی بچا رکھنا حدود ذات کے اندر نہ کوئی جھانک سکے تعلقات میں اک […]
جو رستہ چن لیا اس کو بدلنا کیوں نہیں آیا مجھے اوروں کے نقش پا پہ چلنا کیوں نہیں آیا مرےجذبوںکی حدت اسکےدل تک ہی نہیںپہنچی مری کرنوں کو بادل سے نکلنا کیوں نہیں آیا ذرا سا لڑکھڑا کر گر پڑا میں ایک ٹھوکر سے قدم اکھڑے تو پھر مجھ کو سنبھلنا کیوں نہیں آیا […]
زمیں مدار سے اپنے اگر نکل جائے نجانے کونسا منظر کدھر نکل جائے اب آفتاب سوا نیزے پر اترنا ہے گرفت شب سے ذرا یہ سحر نکل جائے ثمر گرا کے بھی آندھی کی خو نہیں بدلی یہی نہ ہو کہ جڑوں سے شجر نکل جائے اب اتنی زور سے ہر گھر پہ دستکیں دینا […]
جو بھی ممکن تھا وہ زیرِ التوا رکھنا پڑا آنے جانے کے لیے اک سلسلہ رکھنا پڑا زندگی بھر کی مسافت رائیگاں ہونے کو تھی منزلوں سے باندھ کر ہر راستہ رکھنا پڑا لوگ کب تیار تھے بیدار ہونے کے لیے ہر کسی کی آنکھ میں اک حادثہ رکھنا پڑا ایک بے ترتیب سی دنیا […]
رات بھر کوئی نہ دروازہ کھلا دستکیں دیتی رہی پاگل ہوا وقت بھی پہچان سے منکر رہا دھند میں لپٹا رہا یہ آئینہ کوئی بھی خواہش نہ پوری ہو سکی راستے میں لٹ گیا یہ قافلہ وہ پرندہ ہوں جسے ہوتے ہی شام بھول جائے اپنے گھر کا راستہ ہمسفر سب اجنبی ہوتے گئے جیسے […]
دوستوں کے ہوبہو پیکر کا اندازہ لگا ایک پتھر کے بدن پر کانچ کا چہرہ لگا دیکھنے والی نگاہوں میں اگر تضحیک ہے کون کہتا تھا بھرے بازار میں میلہ لگا خواہشوں کے پیڑ سے گرتے ہوئے پتے نہ چُن زندگی کے صحن میں اُمید کا پودا لگا تیرے اندر کی خزاں مایوس کر دے […]
مرے نصیب کا روشن ستارہ ملنے تک یہ نائو ڈوب نہ جانے کنارہ ملنے تک ہوا کریدتی پھرتی ہے سارے ملبے کو بکھرتی راکھ سے کوئی شرارہ ملنے تک ہر ایک رُت نے کیا انتظار تیرے لیے ہر ایک شاخ نے تجھ کو پکارا ملنے تک میں اپنے آپ کبھی فیصلہ نہیں کرتا تمہاری سمت […]
موت جب آئی تو گھر میں جاگتا کوئی نہ تھا بے حسی کا اس سے بڑھ کر واقعہ کوئی نہ تھا کوئی بھی چارہ نہیں تھا آگے جانے کے سوا جب بھی مڑ کر دیکھتے تھے راستہ کوئی نہ تھا مجھ کو ایسے پیڑ سے پھل پھول کی اُمید تھی جس کی شاخوں پر ابھی […]
دور دور تک کوئی جب نظر نہیں آتا آنکھ کا پرندہ بھی لوٹ کر نہیں آتا موت بھی کنارہ ہے وقت کے سمندر کا اور یہ کنارہ کیوں عمر بھر نہیں آتا خواہشیں کٹہرے میں چیختی ہی رہتی ہیں فیصلہ سنانے کو دل مگر نہیں آتا دور بھی نہیں ہوتا میری دسترس سے وہ بازوئوں […]
یہ زمیں ہم کو ملی بہتے ہوئے پانی کے ساتھ اک سمندر پار کرنا ہے اسی کشتی کے ساتھ عمر یونہی تو نہیں کٹتی بگولوں کی طرح خاک اڑنے کے لیے مجبور ہے آندھی کے ساتھ جانے کس اُمید پر ہوں آبیاری میں مگن ایک پتا بھی نہیں سوکھی ہوئی ٹہنی کے ساتھ میں ابھی […]
جب بھی کسی شجر سے ثمر ٹوٹ کر گرا لوگوں کا اک ہجوم ادھر ٹوٹ کر گرا ایسی شدید جنگ ہوئی اپنے آپ سے قدموں پہ آ کے اپنا ہی سر ٹوٹ کر گرا ہاتھوں کی لرزشوں سے مجھے اس طرح لگا جیسے مری دعا سے اثر ٹوٹ کر گرا اتنی داستان ہے میرے زوال […]
ہم نے دل سے محبت کو رخصت کیا اور بارود کی دھڑکنوں کے سہارے جیے خود کو نفرت کے چشموں سے سیراب کرتے رہے ایک شعلہ بنے تاکہ آرامگاہوں میں پلتے ہوئے بے حسوں کی حفاظت رہے خواب گاہوں میں پردے لٹکتے رہیں رقص جاری رہیں تاکہ محلوں کے آقا کے دربار میں ایک تالی […]
ستمبر کی یاد میں اور تو کچھ یاد نہیں بس اتنا یاد ہے اس سال بہار ستمبر کے مہینے تک آ گئی تھی اُس نے پوچھا ”افتخار! یہ تم نظمیں ادھوری کیوں چھوڑ دیتے ہو” اب اُسے کون بتاتا کہ ادھوری نظمیں اور ادھوری کہانیاں اور ادھورے خواب یہی تو شاعر کا سرمایہ ہوتے ہیں […]
رات کے دوسرے کنارے پر جانے کیا بات ہے کہ شام ڈھلے خوف نادیدہ کے اشارے جھلملاتے ہوئے چراغ کی لَو مجھ سے کہتی ہے”افتخار عارف” رات کے دوسرے کنارے پر ”ایک رات اور انتظار میں ہے” کوئی چُپکے سے دل میں کہتا ہے رات پہ اس بس چلے نہ چلے خواب تو اپنے اختیار […]
ایک رات کی کہانی قصہ شب دو مہتاب زندگی کا اک عجیب باب اک طرف حجابِ رنگ و نور اک طرف جمالِ بے حجاب آنکھ جب کھلی تو صبح دم حجرہِ ہوس کے فرش پر اِک دیا بُجھا ہوا ملا اِک نظر جھکی ہوئی ملی ایک دل رکا ہوا ملا قصہ شب دو مہتاب زندگی […]
خوشگوار موسم میں ان گنت تماشائی اپنی اپنی ٹیموں کو داد دینے آتے ہیں اپنے اپنے پیاروں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں میں الگ تھلگ سب سے بارہویں کھلاڑی کو ہوٹ کرتا رہتا ہوں کیا عجب کھلاڑی ہے کھیل ہوتا رہتا ہے شور مچتا رہتا ہے داد پڑتی رہتی ہے اور وہ الگ سب سے انتظار […]
وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا اک جاگنے والا میری تقدیر میں ہوتا اک عالمِ خوبی ہے میسر مگر اے کاش اس گلی کا علاقہ میری جاگیر میں ہوتا اس آہوئے رم خوردہ و خوش چشم کی خاطر اک حلقہ خوشبو میری زنجیر میں ہوتا مہتاب میں اک چاند سی صورت نظر آتی […]
سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت کسی کو ہم نے مدد کیلئے پکارا نہیں جو ہم نہیں تھے […]
جہاں بھی رہنا یہی اک خیال رکھنا زمیں فردا پہ سنگِ بنیاد حل رکھنا حضور اہلِ کمال فن سجدہ زیر رہنا گناہ میں طرہ کلاہ کمال رکھنا وہ جس نے بخشی ہے بے نوائوں کو نعمتِ حرف وہی سکھا دے گا حرف کو بے مثال رکھنا اندھیری راتوں میں گریہ بے سبب کی توفیق میسر […]
قلم جب درہم و دینار میں تولے گئے تہے کہاں تک دل کی چنگاری، ترے شعلے گئے تہے فصیلِ شہر لبِ بستہ ! گواہی دے کہ لوگ دہانِ حلقہِ زنجیر سے بولے گئے لوگ تمام آزاد آوازوں کے چہرے گرد ہو جائیں فضائوں میںکچھ ایسےزہر بھی گھولےگئےتھے وہ خاکِ پاک ہم اہل حجبت کو ہے […]
کھوئے ہوئے اک موسم کی یاد میں سمائے میری آنکھوں میں خواب جیسے دن وہ مہتاب سی راتیں گلاب جیسے دن وہ گنج شہر وفا میں سحاب جیسے دن وہ دن کہ جن کا تصّور متاع قریہ دل وہ دن کہ جن کی تجلّی فروغ ہر محفل گئے وہ دن تو اندھیروں میں کھو گئی […]