نصیب آزمانے کے دن آ رہے ہیں

نصیب آزمانے کے دن آ رہے ہیں

نصیب آزمانے کے دن آ رہے ہیں قریب ان کے آنے کے دن آ رہے ہیں جو دل سے کہا ہے ، جو دل سے سُنا ہے سب ان کو سُنانے کے دن آ رہے ہیں ابھی سے دل و جاں سرِ راہ رکھ دو کہ لُٹنے لُٹانے کے دن آ رہے ہیں ٹپکنے لگی […]

.....................................................

آخری خط

آخری خط

وہ وقت مری جان بہت دور نہیں ہے جب درد سے رُک جائیں گی سب زیست کی راہیں اور حد سے گزر جائے گا اندوہِ نہانی تھک جائیں گی ترسی ہوئی ناکام نگاہیں چھن جائیں گے مجھ سے مرے آنسو میری آہیں چھن جائے گی مجھ سے مری بے کار جوانی شاید مری اُلفت کو […]

.....................................................

کچھ دن سے انتظارِ سوالِ دگر

کچھ دن سے انتظارِ سوالِ دگر

کچھ دن سے انتظارِ سوالِ دگر میں ہے وہ مضمحل حیا جو کسی کی نظر میں ہے سیکھی یہیں مرے دل کافر نے بندگی رب کریم ہے تو تری رہگزر میں ہے ماضی میں جو مزا مری شام و سحر میں تھا اب وہ فقط تصورِِ شام و سحر میں ہے کیا جانے کس کو […]

.....................................................

خدا وہ وقت نہ لائے

خدا وہ وقت نہ لائے

خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو سکوں کی نیند تجھے بھی حرام ہو جائے تری مسرت پیہم تمام ہو جائے تری حیات تجھے تلخ جام ہو جائے غموں سے آئینئہ دل گداز ہو تیرا ہجوم یاس سے بیتاب ہو کہ رہ جائے وفورِ درد سے سیماب ہو کے رہ جائے ترا شباب […]

.....................................................

کئی بار اس کا دامن بھر دیا

کئی بار اس کا دامن بھر دیا

کئی بار اس کا دامن بھر دیا حسنِ دو عالم سے مگر دل ہے کہ اس کی خانہ ویرانی نہیں جاتی کئی بار اس کی خاطر ذرے ذرے کا جگر چیرا مگر یہ چشمِ حیراں، جس کی حیرانی نہیں جاتی نہیں جاتی متاعِ لعل و گوہر کی گراں یابی متاعِ غیرت و ایماں کی ارزانی […]

.....................................................

سوچ

سوچ

کیوں میرا دل شاد نہیں ہے کیوں خاموش رہا کرتا ہوں چھوڑو میری رام کہانی میں جیسا بھی ہوں اچھا ہوں میرا دل غمگیں ہے تو کیا غمگیں یہ دنیا ہے ساری یہ دُکھ تیرا ہے نہ میرا ہم سب کی جاگیر ہے پیاری تو گر میری بھی ہو جائے دُنیا کے غم یونہی رہیں […]

.....................................................

سرود

سرود

موت اپنی، نہ عمل اپنا، نہ جینا اپنا کھو گیا شورشِ گیتی میں قرینہ اپنا ناخدا دور، ہوا تیز، قریں کام نہنگ وقت ہے پھینک دے لہروں میں سفینہ اپنا عرصئہ دہر کے ہنگامے تہِ خواب سہی گرم رکھ آتشِ پیار سے سینہ اپنا ساقیا رنج نہ کر جاگ اُٹھے گی محفل اور کچھ دیر […]

.....................................................

عشق محنت کشِ قرار نہیں

عشق محنت کشِ قرار نہیں

عشق محنت کشِ قرار نہیں حسن مجبورِ انتظار نہیں تیری رنجش کی انتہا معلوم حسرتوں کا مری شمار نہیں اپنی نظریں بکھیر دے ساقی مَے باندازئہ خمار نہیں زیرِ لب ہے ابھی تبسمِ دوست منتشر جلوئہ بہار نہیں اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں چارئہ انتظار کون […]

.....................................................

انتظار

انتظار

گزر رہے ہیں شب و روز تم نہیں آتیں ریاضِ زیست ہے آزرسدئہ بہار ابھی مرے خیال کی دنیا ہے سوگوار ابھی جو حسرتیں ترے غم کی کفیل ہیں پیاری ابھی تلک مری تنہائیوں میں بستی ہیں طویل راتیں ابھی تک طویل ہیں پیاری اُداس آنکھیں تری دید کو ترستی ہیں بہارِ حسن پہ پابندی […]

.....................................................

حسن اور موت

حسن اور موت

جو پھول سارے گلستاں میں سب سے اچھا ہو فروغِ نور ہو جس سے فضائے رنگیں ہو خزاں کے جور و ستم کو نہ جس نے دیکھا ہو بہار نے جس خونِ جگر سے پالا ہو وہ ایک پھول سماتا ہے چشمِ گلچیں میں ہزار پھولوں سے آباد باغِ ہستی ہے اجل کی آنکھ فقط […]

.....................................................

ہم لوگ

ہم لوگ

دل کے ایواں میں لئے گل شدہ شمعوں کے قطار نورِ خورشید سے سہمے ہوئے اُکتائے ہوئے حسنِ محبوب کے سیال تصور کی طرح اپنی تاریکی کو بھینچے ہوئے لپٹائے ہوئے غایت سود و زیاں، صورت ِ آغاز و مآل وہی بے سود تجسس، وہی بے کار سوال مضمحل ساعت امروز کی بے رنگی سے […]

.....................................................

حسینئہ خیال سے!

حسینئہ خیال سے!

حسینئہ خیال سے! مجھے دے دے رسیلے ہونٹ، معصومانہ پیشانی، حسیں آنکھیں کہ میں اک بار پھر رنگینیوں میں غرق ہو جائوں! مری ہستی کو تیری اک نظر آغوش میں لے لے ہمیشہ کے لیے اس دام میں محفوظ ہو جائوں ضیائے حسن سے ظلماتِ دنیا میں نہ پھر آئو گزشتہ حسرتوں کے داغ میرے […]

.....................................................

ہمت التجا نہیں باقی

ہمت التجا نہیں باقی

ہمت التجا نہیں باقی ضبط کا حوصلہ نہیں باقی اِک تری دید چھن گئی مجھ سے ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی اپنی مشق ستم سے ہاتھ نہ کھینچ میں نہیں یا وفا نہیں باقی تیری چشمِ اَلم نواز کی خیر دل میں کوئی گلہ نہیں باقی ہو چکا ختم عہدِ ہجر و وصال زندگی […]

.....................................................

بول

بول

بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے بول، زباں اب تک تیری ہے تیرا ستواں جسم ہے تیرا بول، کہ جاں اب تک تیری ہے دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں تند ہیں شعلے، سرخ ہے آہن کھلنے لگے قفلوں کے دہانے پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے جسم […]

.....................................................

چند روز اور مری جان!

چند روز اور مری جان!

چند روز اور مری جان! فقط چند ہی روز ظلم کی چھائوں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم اور کچھ دیر ستم سہہ لیں، تڑپ لیں، رو لیں اپنے اجداد کی میراث ہے معذور ہیں ہم جسم پر قید ہے، جذبت پہ زنجیریں ہیں فکر محبوس ہے، گفتار پہ تعزیریں ہیں اپنی ہمت ہے […]

.....................................................

مرگِ سوزِ محبت

مرگِ سوزِ محبت

آئو کہ مرگِ سوزِ محبت منائیں ہم آئو کہ حسن ماہ سے دل کو جلائیں ہم خوش ہوں فراقِ قامت و رُخسارِ یار سے سرو وگل و سمن سے نظر کو ستائیں ہم ویرانِی حیات کو ویران تر کریں لے ناصح آج تیرا کہا مان جائیں ہم پھر اوٹ لے کے دامنِ ابرِ بہار کی […]

.....................................................

انجام

انجام

ہیں لبریز آہوں سے ٹھنڈی ہوائیں اُداسی میں ڈوبی ہوئی ہیں گھٹائیں محبت کی دُنیا پر شام آ چکی ہے سیہ پوش ہیں زندگی کی فضائیں مچلتی ہیں سینے میں لاکھ آرزوئیں تڑپتی ہیں آنکھوں میں لاکھ التجائیں تغافل کے آغوش میں سو رہے ہیں تمہارے ستم اور میری وفائیں مگر پھر بھی اے میرے […]

.....................................................

آج کی رات

آج کی رات

آج رات سازِ درد نہ چھیڑ دُکھ سے بھرپور دن تمام ہوئے اور کل کی خبر کسے معلوم؟ دوش و فردا کی مٹ چکی ہیں حدود زندگی ہیچ! لیکن آج کی رات ایزدیت ہے ممکن آج کی رات اب نہ دُہرا فسانہ ہائے الم فکرِ فردا اتار دے دل سے عمر رفتہ پہ اشکبار نہ […]

.....................................................

ایکسٹیسی

ایکسٹیسی

سبز مدھم روشنی میں سُرخ آنچل کی دھنک سرد کمرے میں مچلی گرم سانسوں کی مہک بازوئوں کے سخت حلقے میں کوئی نازک بدن سلوٹیں ملبوس پر، آنچل بھی کچھ ڈھلکا ہوا گرمی رُخسار سے دہکی ہوئی ٹھنڈی ہوا نرم زلفوں سے ملائم اُنگلیوں کی چھیڑ چھاڑ سُرخ ہونٹوں پر شرارت کے کسی لمحے کا […]

.....................................................

وہ رُت بھی آئی کہ میں پھول کی سہیلی ہوئی

وہ رُت بھی آئی کہ میں پھول کی سہیلی ہوئی

وہ رُت بھی آئی کہ میں پھول کی سہیلی ہوئی مہک میں چمپا کلی، روپ میں چنبیلی ہوئی وہ سرد رات کی برکھا سے کیوں نہ پیار کروں یہ رُت تو ہے مرے بچپن کی ساتھ کھیلی ہوئی زمیں پہ پائوں نہیں پڑ رہے تکبر سے نگارِ غم کوئی دُلہن نئی نویلی ہوئی وہ چاند […]

.....................................................

واہمہ

واہمہ

تمہار کہنا ہے تم مجھے بے پناہ شدت سے چاہتے ہو تمہاری چاہت وصال کی آخری حدوں تک مرے فقط میرے نام ہو گی مجھے یقیں ہے مجھے یقیں ہے، مگر قسم کھانے والے لڑکے ! تمہاری آنکھوں میں ایک تل ہے! پروین شاکر

.....................................................

تجھ سے تو کوئی گلہ نہیں ہے

تجھ سے تو کوئی گلہ نہیں ہے

تجھ سے تو کوئی گلہ نہیں ہے قسمت میں مری، صلہ نہیں ہے بچھڑے تو نجانے حال کیا ہو جو شخص ابھی ملا نہیں ہے جینے کی تو آرزو ہی کب تھی مرنے کا بھی حوصلہ نہیں ہے جو زیست کو معتبر بنا دے ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہے خوشبو کا حساب ہو چکا ہے […]

.....................................................

شام آئی، تری یادوں کے ستارے نکلے,

شام آئی، تری یادوں کے ستارے نکلے,

شام آئی، تری یادوں کے ستارے نکلے رنگ ہی غم کے نہیں، نقش بھی پیارے نکلے ایک معصوم تمنا کے سہارے نکلے چاند کے ساتھ ترے ہجر کے مارے نکلے کوئی موسم ہو مگر شان خم و پیچ وہی رات کی طرح کوئی زلف سنوارے نکلے رقص جن کا ہمیں ساحل سے بہا لایا ہے […]

.....................................................

رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی

رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی

رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے زخمی تھا بہت پائوں مسافت بھی بہت تھی سب دوست مرے منتظر پردئہ شب تھے دن میں تو سفر کرنے میں دقت بھی بہت تھی بارش کی دعائوں میں نمی […]

.....................................................