اُجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

اُجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

اُجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے؟ خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اُڑا کر اس شخص کے تم سے بھی مراسم تو ہوں گے وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آکر اب دستکیں دے گا […]

.....................................................

شکستہ آئینوں کی کرچیاں اچھی نہیں لگتیں

شکستہ آئینوں کی کرچیاں اچھی نہیں لگتیں

شکستہ آئینوں کی کرچیاں اچھی نہیں لگتیں مجھے وعدوں کی خالی سیپیاں اچھی نہیں لگتیں گزشتہ رُت کے رنگوں کا اثر دیکھو کہ اب مجھ کو کھلے آنگن میں اڑتی تتلیاں اچھی نہیں لگتیں وہ کیا اجڑا نگر تھا جسکی چاہت کے سبب ابتک ہری بیلوں سے الجھی ٹہنیاں اچھی نہیں لگتیں دبے پائوں ہوا […]

.....................................................

نئی طرح سے نبھانے کی دل نے ٹھانی ہے

نئی طرح سے نبھانے کی دل نے ٹھانی ہے

نئی طرح سے نبھانے کی دل نے ٹھانی ہے وگرنہ اس سے محبت بہت پُرانی ہے خدا وہ دن نہ دکھائے کہ میں کسی سے سنوں کہ تو نے بھی غمِ دنیا سے ہار مانی ہے زمیں پہ رہ کے ستارے شکار کرتے ہیں مزاج اہلِ محبت کا آسمانی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ! ہمیں عزیز ہو […]

.....................................................

متاع شامِ سفر بستیوں میں چھوڑ آئے

متاع شامِ سفر بستیوں میں چھوڑ آئے

متاع شامِ سفر بستیوں میں چھوڑ آئے بجھے چراغ ہم اپنے گھروں میں چھوڑ آئے بچھڑ کے تجھ سے چلے ہم تو اب کے یوں بھی ہوا کہ تیری یاد کہیں راستوں میں چھوڑ آئے ہم اپنی دربدری کے مشاہدے اکثر نصیحتوں کی طرح کم سنوں میں چھوڑ آئے خراجِ سیل بھلا اس سے بڑھ […]

.....................................................

معرکہ اب کے ہوا بھی تو پھر ایسا ہو گا

معرکہ اب کے ہوا بھی تو پھر ایسا ہو گا

معرکہ اب کے ہوا بھی تو پھر ایسا ہو گا تیرے دریا پہ مری پیاس کا پہرہ ہو گا اس کی آنکھیں تیرے چہرے پہ بہت بولتی ہیں اس نے پلکوں سے ترا جسم تراشا ہو گا کتنے جگنو اسی خواہش میں مرے ساتھ چلے کوئی رستہ ترے گھر کو بھی تو جاتا ہو گا […]

.....................................................

میں دل پہ جبر کروں گا، تجھے بھلا دوں گا

میں دل پہ جبر کروں گا، تجھے بھلا دوں گا

میں دل پہ جبر کروں گا، تجھے بھلا دوں گا مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا یہ تیرگی مرے گھر کا ہی کیوں مقدر ہو؟ میں تیرے شہر کے سارے دیے بجھا دوں گا ہوا کا ہاتھ بٹائوں گاہر تباہی میں! ہرے شجر سے پرندے میں خود اُڑا دوں گا وفا […]

.....................................................

کھنڈر آنکھوں میں غم آباد کرنا

کھنڈر آنکھوں میں غم آباد کرنا

کھنڈر آنکھوں میں غم آباد کرنا کبھی فُرصت ملے تو یاد کرنا اذیت کی ہوس بجھنے لگی ہے کوئی تازہ ستم ایجاد کرنا کئی صدیاں پگھلنے کا عمل ہے بدن سے روح کو آزاد کرنا ابھی کیسی پرستش بجلیوں کی؟ ابھی گھر کس لیے برباد کرنا تمہارا جھوٹ، سچ سے معتبر ہے مرے حق میں […]

.....................................................

خلوت میں کھلا ہم پہ کہ بیباک تھی وہ بھی

خلوت میں کھلا ہم پہ کہ بیباک تھی وہ بھی

خلوت میں کھلا ہم پہ کہ بیباک تھی وہ بھی محتاط تھے ہم لوگ بھی، چالاک تھی وہ بھی افکار میں ہم لوگ بھی ٹھہرے تھے قد آور! پندار میں ” ہم قامتِ افلاک ” تھی وہ بھی اسے پاسِ ادب، سنگ صفت عزم تھا اس کا اسے سیل طلب، صورت خاشاک تھی وہ بھی […]

.....................................................

کاش ہم کھل کے زندگی کرتے

کاش ہم کھل کے زندگی کرتے

کاش ہم کھل کے زندگی کرتے! عمر گزری ہے خودکشی کرتے!! بجلیاں اس طرف نہیں آئیں ورنہ ہم گھر میں روشنی کرتے کون دشمن تری طرح کا تھا؟ اور ہم کس سے دوستی کرتے؟ بجھ گئے کتنے چاند سے چہرے دل کے صحرا میں چاندنی کرتے عشق اُجرت طلب نہ تھا ورنہ ہم ترے در […]

.....................................................

کڑے سفر میں اگر راستہ بدلنا تھا

کڑے سفر میں اگر راستہ بدلنا تھا

کڑے سفر میں اگر راستہ بدلنا تھا تو ابتدا میں مرے ساتھ ہی نہ چلنا تھا کچھ اس لیے بھی تو سورج زمیں پر اترا ہے پہاڑیوں پہ جمی برف کو پگھلنا تھا اتر کے دل میں لہو زہر کر گیا آخر وہ سانپ جس کو مری آستیں میں پلنا تھا یہ کیا کہ تہمتیں […]

.....................................................

وہ لڑکی بھی ایک عجیب پہیلی تھی

وہ لڑکی بھی ایک عجیب پہیلی تھی

وہ لڑکی بھی ایک عجیب پہیلی تھی پیاسے ہونٹ تھے آنکھ سمندر جیسی تھی سورج اس کو دیکھ کے پیلا پڑتا تھا وہ سرما کی دھوپ میں دھل کر نکلی تھی اس کو اپنے سائے سے ڈر لگتا تھا سوچ کے صحرا میں وہ تنہا ہرنی تھی آتے جاتے موسم اس کو ڈستے تھے ہنستے […]

.....................................................

وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے

وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے

وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے وہ بھی چڑھتے ہوئے سورج کے پجاری نکلے سب کے ہونٹوں پہ مرے بعد ہیں باتیں میری! میرے دشمن میرے لفظوں کے بھکاری نکلے اک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کے ساتھ جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے بہتے اشکوں سے شعاعوں کی سبیلیں […]

.....................................................

شامل مرا دشمن صفِ یاراں میں رہے گا

شامل مرا دشمن صفِ یاراں میں رہے گا

شامل مرا دشمن صفِ یاراں میں رہے گا یہ تیر بھی پیوست رگِ جاں میں رہے گا اک رسمِ جنوں اپنے مقدر میں رہے گی اک چاک سدا اپنے گریباں میں رہے گا اک اشک ہےآنکھوںمیںسوچمکے گا کہاں تک؟ یہ چاند زد شامِ غریباں میں رہے گا میں تجھ سے بچھڑ کر بھی کہاںتجھ سےجُداہوں […]

.....................................................

ہر ایک زخم کا چہرہ گلاب جیسا ہے

ہر ایک زخم کا چہرہ گلاب جیسا ہے

ہر ایک زخم کا چہرہ گلاب جیسا ہے مگر یہ جاگتا منظر بھی خواب جیسا ہے یہ تلخ تلخ سا لہجہ، یہ تیز تیز سی بات مزاجِ یار کا عالم شراب جیسا ہے مرا سخن بھی چمن در چمن شفق کی پھوار ترا بدن بھی مہکتے گلاب جیسا ہے بڑا طویل ، نہایت حسین، بہت […]

.....................................................

ہر نفس رنج کا اشارہ ہے

ہر نفس رنج کا اشارہ ہے

ہر نفس رنج کا اشارہ ہے۔۔۔۔۔۔۔! آدمی دُکھ کا استعارہ ہے ۔۔۔۔۔۔! مجھ کو اپنی حدوں میں رہنے دے میں سمندر ہوں تو کنارا ہے اجنبی! شب کو راستہ نہ بدل تو میری صبح کا ستارا ہے یا سماعت کی خود فریبی تھی یا تری یاد نے پکارا ہے شامِ شب خوں نے دشت سے […]

.....................................................

اتنی مدت بعد ملے ہو!

اتنی مدت بعد ملے ہو!

اتنی مدت بعد ملے ہو! کن سوچوں میں گم پھرتے ہو؟ اتنے خائف کیوں رہتے ہو؟ ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو؟ کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے رات گئے تک کیوں جاگے ہو؟ میں دریا سے بھی ڈرتا ہوں تم دریا سے […]

.....................................................

گُم صُم ہوا، آواز کا دریا تھا جو اک شخص

گُم صُم ہوا، آواز کا دریا تھا جو اک شخص

گُم صُم ہوا، آواز کا دریا تھا جو اک شخص پتھر بھی نہیں اب وہ، ستارا تھا جو اک شخص شاید وہ کوئی حرفِ دعا ڈھونڈ رہا تھا چہروں کو بڑے غور سے پڑھتا تھا جو اک شخص صحرا کی طرح دیر سے پیاسا تھا وہ شاید بادل کی طرح ٹوٹ کے برسا تھا جو […]

.....................................................

فلک پر اک ستارہ رہ گیا ہے

فلک پر اک ستارہ رہ گیا ہے

فلک پر اک ستارہ رہ گیا ہے مرا ساتھی اکیلا رہ گیا ہے یہ کہہ کر پھر پلٹ آئیں ہوائیں! شجر پر ایک پتا رہ گیا ہے ہر اک رُت میں ترا غم ہے سلامت یہ موسم ایک جیسا رہ گیا ہے ہمارے بعد کیا گزری عزیزو! سنائو شہر کیسا رہ گیا ہے ؟ برس […]

.....................................................

چہرے پڑھتا، آنکھیں لکھتا رہتا ہوں

چہرے پڑھتا، آنکھیں لکھتا رہتا ہوں

چہرے پڑھتا، آنکھیں لکھتا رہتا ہوں میں بھی کیسی باتیں لکھتا رہتا ہوں؟ سارے جسم درختوں جیسے لگتے ہیں اور بانہوں کو شاخیں لکھتا رہتا ہوں تجھ کو خط لکھنے کے تیور بھی بھول گئے آڑی ترچھی سطریں لکھتا رہتا ہوں تیرے ہجر میں اور مجھے کیا کرنا ہے ؟ تیرے نام کتابیں لکھتا رہتا […]

.....................................................

چمن میں جب بھی صبا کو گلاب پوچھتے ہیں

چمن میں جب بھی صبا کو گلاب پوچھتے ہیں

چمن میں جب بھی صبا کو گلاب پوچھتے ہیں تمہاری آنکھ کا احوال، خواب پوچھتے ہیں کہاں کہاں ہوئے روشن ہمارے بعد چراغ؟ ستارے دیدئہ تر سے حساب پوچھتے ہیں وہ تشنہ لب بھی عجب ہیں جو موجِ صحرا سے سراغِ حبس، مزاجِ سراب پوچھتے ہیں کہاں بسی ہیں وہ یادیں، اجاڑنا ہے جنہیں؟ دلوں […]

.....................................................

چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کی لکیر تھی

چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کی لکیر تھی

چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کی لکیر تھی قاتل کے ہاتھ میں تو حنا کی لکیر تھی خوش ہوں کہ وقتِ قتل مرا رنگ سرخ تھا میرے لبوں پہ حرفِ دعا کی لکیر تھی میں کارواں کی راہ سمجھتا رہا جسے صحرا کی ریت پر وہ ہوا کی لکیر تھی سورج کو جس نے […]

.....................................................

بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے

بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے

بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ہے یہ ختمِ وصل کا لمحہ ہے، رائیگاں نہ سمجھ کہ اس کے بعد وہی دوریوں کا صحرا ہے کچھ اور دیر نہ جھڑنا اداسیوں کے شجر کسے خبر ترے سائے میں کون بیٹھا ہے ؟ یہ رکھ […]

.....................................................

آندھی چلی تو دھوپ کی سانسیں الٹ گئیں

آندھی چلی تو دھوپ کی سانسیں الٹ گئیں

آندھی چلی تو دھوپ کی سانسیں الٹ گئیں عریاں شجر کے جسم سے شاخیں لپٹ گئیں دیکھا جو چاندنی میں گریبانِ شب کا رنگ کرنیں پھر آسمان کی جانب پلٹ گئیں میں یاد کر رہا تھا مقدر کے حادثے! میری ہتھیلیوں پہ لکیریں سمٹ گئیں مٹی کے معجزے رہے مرہونِ کارواں پانی کی خواہشیں تھیں […]

.....................................................

آہٹ سی ہوئی تھی نہ کوئی برگ ہلا تھا

آہٹ سی ہوئی تھی نہ کوئی برگ ہلا تھا

آہٹ سی ہوئی تھی نہ کوئی برگ ہلا تھا میں خود ہی سرِ منزلِ شب چیخ پڑا تھا لمحوں کی فصیلیں بھی مرے گرد کھڑی تھیں میں پھر بھی تجھے شہر میں آوارہ لگا تھا تو نے جو پکارا ہے تو بول اٹھا ہوں، ورنہ میں فکر کی دہلیز پہ چپ چاپ کھڑا تھا پھیلی […]

.....................................................